Description
اردو شاعری کا یہ مجموعہ ۲۱۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان صفحات میں غزلیں اور مختلف انواع کی نظمیں شامل ہیں، جو آپ کو تخیّل کی ایک ایسی منزل تک لے جائیں گی جہاں آپ عشقِ حقیقی اور مجازی، دونوں سے متعارف ہوسکیں گے۔
اس سفر کے دوران آپ حقیقت اور مجاز کے سطحی اور عمیق رازوں کو جان سکیں گے۔
اردو دنیا کے مشہور شعراء اور ادیب خاطر غزنوی اور ناصر علی سید کےاقتباسات اس کتاب میں شامل ہیں۔
اکرام بریلوی – مسساؤگا، کینیڈا –
خالد رؤف کا پہلا شعری مجموعہ میری نظر سے نیہں گزرا- ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ” کانچ کے گلدان” پوری توجہ اور بڑے انہماک سے پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان کی غزلوں اور اور منظومات میں حدیثِ دل و دلبراں اور حکایتِ غمِ دوراں کو گرمیِ نشاطِ تصور اور درد و سوزِ آرزو مندی کے ساتھ موضوع سخن بنایا گیا ہے- علاوہ ازیں، ان کے ہاں یادوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ وہ ان کی شاعری میں جزبہ کو طرح طرح سے جگاتی اور رنگ بھرتی یہں- حیرت کن بات یہ ہے اردو اگرچہ خالد رؤف کی مادری زبان نیہں مگر ان کی شاعری میں زبان کی صحت اور روزمرہ کے محاورے کو برتنے کی صلاحیت اور سلیقہ کسی طور اہلِ زبان سے کم تر نیہں- اگر خالد رؤف نے اپنی شاعری کا سفر اسی وضع و احتیاط کے ساتھ جاری رکھا تو وہ مستقبل میں احمد فراز اور محسن احسان کی سی شہرت اور مقبولیت حاسل کرسکتے ہیں۔
عبد اللہ جاوید – اردو پوسٹ –
خالد رؤف کے “کانچ کے گلدان” شیشے کے گلدان بھی ہو سکتے تھے لعکن نہیں ہوئے کیونکہ شیشہ آئینا بھی ہوسکتا ہے جو
عکس سے مشروط ہے۔ عکس سے خالے آعینہ ہی کیا اور عکس کا کیا اعتبار، عکس تو عکس ہی رہتا ہے اصل کی جگہ نہیں لے سکتا- شیشہ بوتل سے بھی ہم رشتہ ہے- بوتل کے ساتھ ہی زمانہ قدیم کی شیشہ کری جس میں شیشہ ساز سلیکا کے آمیزے کو اپنی پھونک کے ذریعے ظرف کی شکل دیتے تھے تب تو میر نے کہا
چلئے صاحب خیریت اسی میں ہے کہ کانچ کے گلدان کی طرف لوٹ آیا جائے- کانچ کا تعلق نزاکت سے ہے اور گلدان کا تعلق
پھولون سے ہے، پھولوں کا رشتہ باغ سے ہے اور بقول خالد رؤف،
باغ لگتا ہے کہاں کانچ کے گلدانوں میں
باغ کا ذکر آ ہی گیا ہے تو موسم کا ذکر بھی کرلیا جائے لیکن موسم کا معاملا خالد رؤف کے ہان یوں الجھ
کر رہ گیا کہ بندہ تو پھر بندہ ہے رب تو رب ہے،
پھول چنتا ہوں تو چبھ جاتے ہیں کانتے دل میں میرے موسم سے الگ ہیں، مرے رب کے موسم
اس شعر میں خالد رؤف نے جس طرح رب کے موسم کی بات کی ہے، اردو اور فارسی میں اس کی مثال شاید ہی ملے- یہ ایک لائقِ تغسین بات ہے- اس پر خالد رؤف فخر بھی کرسکتے ہیں۔
کانچ کے گلدان درحقیقت ایک چونکانے والی شاعری کی کتاب ہے- شعری مجموعوں کی عام ڈگر سے ہٹی ہوئے- نئی نویلی سی کچی کچی سی تازہ تازہ سی، نوزائیدہ یا نومیدہ سی اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں ہم اس کتاب کے پیش لفظ کی جانب رجوع ہونگے- خالد رؤف کہتے ہیں کانچ کے گلدان لے کر حاضر ہوں اس میں شامل تمام نظمیں اور غزلیں میرے احساسات اور جذبات کی سچی ترجمان ہیں۔ خیالات ذہن میں ابھرے تو انہون نے الفاظ اور ترکیبون کا سہارا لیا- جو اشعار کی صورت میں ظاہر ہویے- ان اشعار کو بغیر کسی آلائش یہ زیبائش کے صرف اصولی ترکیب و ترتیب کے بعد پعش کر رہا ہوں- میری رائے میں شعر جب ذہن کے کسی گوشے میں جنم لیتا ہے تو بہت معصوم اور سادہ ہوتا ہے- شاعر کا ادبی ذوق اور عملی صلاحیت اسے تخلیق اور ارتقاء کے مراحل سے روشناس کراتے ہیں اور اپنے تئیں اسے ایک بلند ادبی درجے تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں- اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس دور سے گزر کر شعر اپنا تصوراتی بھولپن اور سچائی کھودیتا ہے اور بناوٹ کے سانچے میں ڈھل کر ایک ایسے انداز میں سامنے آتا ہے جو کہ عام فہم کم اور قابلِ نمائش زیادہ رہ جاتا ہے- شعر کے ابدتداعی قد و قامت اور اس کا مزاج ایک نوزائیدہ بچے کی طرح ہوتے ہیں جن کو کسی بھی سانچی میں ڈھالا جا سکتا ہے- شعر کے اوپر اگر شاعر اپنی عملی قابلیت اور بھاری بھرکم الفاظ اصطلاحات اور قواعد کا بوجھ لاد دے تو اس کی انفرادیت اور جدت پر منفی اثرات مرتب ھونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اور اس کی شگفتگی کو قائم رکھنا مشکل ہے- اس سوچ کے پیشِ نظر میں نے اپنے اشعار کو ان کی اصلے اور ابتدائی حالت میں ہی پیش کرنے کی جسارت کی ہے اور نظرثانی کے نتیجے میں نہ تو خیال میں مزید گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی متبادل الفاظ شامل کئے ہیں- زبان کو اور انداز فکر کو ان کی بنیادی سطحِ پیدائش پر قائم رکھا ہے- کہیں کہیں نظم کو مکمل طور پر قواعد کے تابع نہیں رہنے دیا اور ارادی طور پر بحر کو قائم رکھتے ہوئے اشعار کو قافیہ اور ردیف کی پابندی سے آزاد کردیا ہے- امید ہے کے اس تجربے سے شعروں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کی میری کوشش کامیاب رہی ہوگی – فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے-
آپنےدیکھا کہ شاعر نے اپنی شاعری کے اس دوسرے مجموعے میں اس سے قبل آرزو کا پھول شائع ہو چکا ہے- یہ تجربہ کیا کے شاعری کی زبان اور انداز فکر کو ان کی بنیادی سطحِ پیدائش پر قائم رکھنا ہے گویا خالد رؤف نے آتش سے قطعی مختلف انداز میں شعر تخلیک کئے ہیں آتش کا نظریہ کچھ یوں تھا
میں نے آتش کے درج بالا شعر کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ خالد رؤف کے نظریئے کی وضاحت کرسکوں- خالد رؤف نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ پتہ چل گیا ہے کے شعر کو جس شکل میں آتا ہے اس میں پیش کرنا چاہتے ہیں- ان کی یہ خواہش قابل داد ہے- ان کی کتاب پڑھ کر آپ بھی میری مانند اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ وہ اپنے تجربے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی کتاب سے جو مجموعی تاثر پعدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ شاعر جو کچھ محسوس کر رہا ہے اور احساس کی سطح پر اس کی فکر میں جو ارتعاشات پعدا ہورہے ہیں ان کا ابلاغ براہراست کر رہا ہے- وہ جس کو ہم شاعری کی زبان یا اصطلاح میں
(Spontaneous)
کہتے ہیں- اس شعری مجموعے میں اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے- اس کے علاوہ ایک کچاپن ایک بچکانہ سا انداز لفظوں، فقروں اور اشعار کی مثبت میں موجود ہے- یوں لگتا ہے کہ شاعر نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں جو لکھا وہی کر دکھایا ہے اور تو اور کتاب کا اغاز ایک نظم سے کیا ہے جس کا عنوان ہے، “شکریہ” – نظم پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ھے یہ تو حمد ہے – دل سے کہی ہوئی حمد جو
حمد کے روایتی روپ سے یکسر ہٹی ہوئی ہے اور پڑھنے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے تو یہ تصاویر تاثر میں شدت کا رنگ بھرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جعسے ان مصرعوں میں دیکھئے
اور پھر یہ مصرع
خالد رؤف کی غزل ان کے کچے پن کے نظریے کے باوجود پکی ہے
خالد رؤف پشاور کے ہین، انجنیئر ہیں، شاعری کا ایک نظریہ رکھتے ہیں، ہر تجربہ کچھ وقت مانتا ہے ان کے تیسرے شعری مجموعے سے توقعات رکھی جاسکتی ہیں وہ تجربے کے مرحلے سے آگے نکل چکے ہونگے-
پروفیسر خاطر غزنوی –
شاعری ایک جذبہ ہے- جذبہ بڑی وسیع چیز ہے- اس کے کئی پہلو ہیں مثبت بھی اور منفی بھی- ہر جذبے کی ایک حد ہے- جہاں محبت ہے وہاں نفرت ہے- غصہ رواداری، عشق، بے قراری، قرار، احسان مندی، خلوص، دوستی، دشمنی غرض کس کس جذبے کا تذکرہ کیا جائے- شاعر اپنی شاعری میں ان ہی جذبوں کا اظہار کرتے ہیں- جذبہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے ودیعت کیا ہے- البتہ شاعر کو جذبے کا احساس شدید ہوتا ہے- اس کے باوجود شاعری میں ماحول کا اثر دخل ہے- شاعر اپنے ماحول میں جوانوں کے جذبات کے نئے نئے رنگ بناتا ہے- لعکن حعرت اس بات کی ہے کہ وطن سے دور رہ کر اپنی زبان سے کٹ کر بعض شعرا جن کے اندر جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے وہ شعر کو اپنائے رکھتے ہیں اس وقت ہزاروں لوگ ہیں جو وطن سے دور غیر ماحولی فضا میں سانس لعتے ہیں لیکن ان کی زبان ان کے ذہن کا ساتھ دیتی ہے اور قلم اس کی ترجمانی قتطاس پر کرتا رہتا ہے- یورپ، انگلستان، امارات، سعودی عرب، جاپان، چین، روس، امریکہ میں شاعروں کی کھیپ موفود ہے اور وہ اپنی اپنی زبانوں کی آبیاری میں مصروف ہیں- اردو، پشتو، ہندی، فارسی اور دوسرے زبانوں کی شاعری پنپ رہے ہے-
کینیڈا ایک دوردراز سرزمین ہے لیکن یہاں اردو مختلف شہروں میں پنپ رہی ہے- ٹورنٹو، مونٹریال اور کالگری میں بہت سے اچھا لکھنے والے موجود ہیں- اشفاق حسین نے وہاں شاعری کے علاوہ فیض پر بیش بہا کتاب لکھی ہیں- اردو رسالے شائع ہوئے-
اچانک پچھلے دنوں مجھے ایک کتاب موصول ہوئی “اک آرزو کا پھول” یہ کتاب خالد رؤف کی شاعری کا مجموعہ ہے-
خالد رؤف صاحب کی پہلی کتاب “اک آرزو کا پھول” کی پشاور میں خوب پذیرائی ہوئی اور اس کا سہرا پشاور کی شاعرہ بشریٰ فرخ کے سر جاتا ہے- انہاں نے بھرپور محفلیں سجائیں اور احمد فراز اور محسن احسان اور سجاد بابر جیسے شعراء شریک ہوئے- اب خالد رؤف کی دوسری کتاب کانچ کے گلدان سامنے آئی ہے یہ تو اچھا ہوا کہ خالد نے “کانچ کے گلدان” کتاب کا نام رکھا ہے- گلدان ای سے زیادہ ہیں ایک گلدان جو سرورق پر نظر آتا ہے لیکن دوسرے گلدان نظر نہیں آرہے ہیں-
خالد رؤف میں جذبہ اور شاعری بدرجہ اتم موجود ہے ان کو اتنا مشورہ دے سکتا ہوں کی ٹورنٹو میں اساتذہ شعراء سے ضرور رابطہ قائم رکھیں-
ہیان میں ان کا ایک شعر پیش کرونں گا-
محمد اقبال حسین صدیقی –
حامد قریشی صاحب نے مجھے کانچ کے گلدان بھجوائی۔ کتاب اتنی خوبصورت چھپی ہے کہ میں کتاب دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ خالد رؤف کی شاعری کا مجموعہ ہے، خالد رؤف صاحب خود انجنیئر ہیں اور شمالی امریکہ وغیرہ میں کام کرتے ہیں کینیڈا، امریکہ وغیرہ میں اعلیٰ مناسب پر فائز افراد ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں ان کو Workoholic
یعنی شراب نوشی کی لت کی طرح کام کرنے کی لت ہوتی ہے۔ عزیز رشتہ دار، بیوی بچے سب بھول جاتے ہیں۔ خالد رؤف کی یہ بڑی ہمت و جراَت ہے کہ وہ ایسے ماحول میں بھی شاعری کرتے رہے۔ خالد رؤف کی شاعری میں روانی ہے۔ اشعار زبان پر نیہں اٹکتے۔ دریا کی سی روانی ہے۔
اب کہاں پھول کہاں رنگ وفاداری کے
داغ فرقت کے مجھے دے گئے کب کے موسم
ہم نبھاتے رہے الفت میں وفا کی رسمیں
وقت کرتا رہا دنیا سے شکایت کیا کیا
خالد رؤف شائستہ وضع دار عاشق ہیں۔ علامہ ٰقبال پہلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جبکہ رؤف خالد بھی اپنی نطروں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ذکروصال عشق میں کرنا حرام ہے
شوق نظر نے کر دیا بے آبرو مجھے
یہی شاعر کی نظروں کی معصومیت ہے جو ایک طوائف کو فرشتہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ نظم فرشتہ میں شاعر کی ملاقات ایک حور سے ہوتی ہے۔ جس کا چہرہ چاند، ریشم جیسے نرم ہاتھ ہونٹوں پہ بھولپن جادو جیسی آواز ہوتی ہے ۔
اس نے شرما کے مسکرا کے کہا
میرا گھر تھوڑے فاصلے پر ہے
تم میرے ساتھ کیوں نہیں چلتے
رات میرے پاس ہی رہ جانا
صبح کا ناشتہ یہیں پر کرنا
پھر حور بتاتی ہے کہ میری اجرت ہے پانچ سو ڈالر۔ پاکیستان کے لحاظ سے تیس ہزار روپے بہت زیادہ ہے۔ شاعر کی یہ معصومانہ نظر جلد ہی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ محبت مٹتی جا رہی ہے۔
کچھ ذکر محبت کا کرو بزم میں یارو
پھر آج اسے کوئی عقیدت سے پکارے
بھوک مٹاتے ہوئے ہر ٹکڑے اور پیاس بجھاتے ہوئے ہر قطرے کا شکر گزار شاعر بھی تھوڑا بہت فرقتِ غم محسوس کرتا ہے۔
آکے بیٹھا ہے دل کی مند پر
درد الفت کا جانشیں جسے
اب میں آزاد ہوں
مسرور ہوں
آوارہ ہوں
حقیقت میں ایسا نیہں ہے۔ خالد رؤف اپنے وطن پاکستان میں ذہنی طور پر ہر وقت موجقد رہتے ہیں۔ زیادہ تر شاعری کانچ کے گلدان میں ٹورنٹو کینیڈا وغیرہ میں کی گئی ہے۔ مگر شاعری میں پاکستان ہے جھلکتا ہے۔ کینیڈا وغیرہ نظر نیہں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دیارِ غیر کے حسینانِ چمن شاعر کو پسند نیہں آتے۔
دن بھٹکتے ہیں تری سوچ کے گلزاروں میں
تیری زلفوں میں گرفتار ہیں شب کے موسم
انسانی بنیادی طور پر نا شکرا ہے اپنے خالق کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے- گلے شکوے کرتا ہے- خالد رؤف شکر گزار بندے ہیں-
شکریہ آگ کا اس خاک کا اس پانی کا
شکریہ موت کے لمحات کی آسانی کا
شاعر موت کا بھی شکر گزار ہے اگر آسانی سے آجائے-
ایک سفیک لڑکی کی بہت اچھی تصویر کھینچی ہے-
ریشمی بال کھلتے ہوئے کندن کندن
شوخ آنکھیں ذرا حیران بھی نیلی نیلی
پیراہن ڈھانپ رہا ہے اچھے تن کو
کبھی سیماب کناروں سے جھلک جاتا ہے
اردو شاعری میں ٹورنٹو کی ایک صبح جیسے مناظر بہت کم ملتے ہیں-
نرم چادر سی بچھی جاتی ہے تا حد نظر
شہر کا شہر ہے
ٹھٹھرا ہوا
سہما سہما
ماند کرنیں ابھی پھیلی ہیں گزر گاہوں پر
چاند کی شکل میں سورج ہے صبح کا ابھرا
سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت بھی ہمارا سورج چاند نیہں بنتا
شاعر شکر گزار بہت کم ہوتے ہیں- ہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہیں- خالد رؤف شکر گزار شاعر ہیں-
شکریہ حسن کا احساس کا نادانی کا
شکریہ عقل کا عظمت کا پشیمانی کا
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے- اللٰہ سے یے سوال نیہں کیا جاسکتا کہ مجھے کیوں پیدا کیا ہے؟ وہ اس لئے کوئی ذی روح مرنا نیہں چاہتا- شاید انتہائی بدقسمت لوگ خودکشی کرتے ہیں- ورنہ ایک لاکھ سال کی زندگی کے بعد موت یہ احساس دلاتی ہے کہ ابھی تو زندگی کا پورا لطف نیہں اٹھا سکتے- کاش زندگی کئی لاکھ سال اور لمبی ہو جائے اور موت نہ آئے- غم اور درد پریشانی مصیبت کے گزرنے کے بعد حقیقی خوشی محسوس ہوتی ہے، خالد رؤف نے اس کی خوبصورت ترجمانی کی ہے-
شکریہ درد کے دورے کا جو ٹل جاتا ہے
شکریہ غم کے تسلسل کا جو ڈھل جاتا ہے