Description
خالق حقیقی سے ملاقات کرانے والا یہ شاعری مجموعہ اردو زبان میں شائع ہونے والی وہ پہلی کتاب ہے، جس میں کائنات کے وجود اور اسکے خالق کی ہستی کے بارے میں سیکڑوں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔
مختلف عقائد سے قطع نظر عالم موجودات اور غیر موجودات کی حقیقت اور ان کے خالق کے تصور کے بارے میں ایک سیر حاصل بحث ان اشعار میں آپ کو ملےگی۔ جو آپ کے تصور خدا کو ایک نئی سطح احساس تک لے جائے گی۔ کسی مخصوص دین یا مذہب سے اس کتاب کا کوئی تعلق نہیں۔
پروفیسر مامون ایمن –
الٰہ نامی یہ کتاب ، شمالی امریکا سے شائع ہونے والی، اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب کے خالق کا نام ہے، خالد رؤف قریشی ، جو پشاور میں پیدا ہوا تھا، اور اب کینیڈا کے سب سے بڑے شہر، ٹورانٹو کی ایک نواحی بستی میں، اپنے خانوادِہ کے ساتھ رہتا ہے۔ خالد اب عمر کے اس حصہ میں ہے، جب دریا کے مصداق: ’’میں اب دریا نہیں، دہانہ ہوں، واپس مڑ مڑ کر، ان موجوں کو آواز دیتا ہوں، جو مجھ سے بچھڑ گئی ہیں ۔ لہذا ، اب یہ اعلان کیا جا سکتا ہے: ’’خالد گزری گھڑیوں کو آواز دیتا ہے، تا کہ خود کو سمیٹ سکے۔“
اس کتاب میں نظمیں ہیں، پابند، آزاد اور نثری، چھوٹی اور بڑی۔ ان نظموں میں، خالد کی زندگی سمٹی نظر آتی ہے، پوری طرح نہیں، نہ سہی ، جزوی اور ادھوری، ادھوری سی ، کہ اپنے بارے میں، کوئی ذی شعور قلم کار بھی پوری بات، پورے تاثرات اور مکمل انداز سے کہنے پر قدرنہیں رکھتا۔ بجا، خالد ایک ذی شعور قلم کار ہے، لیکن وہ ایک انسان ہے، گوشت پوست کا بنا، واقعات و حالات سہنے والا ، خسارہ اور نقصان کا ازل سے مارا، مجبور انسان۔ وہ وہی بات کہتا ہے، دہراتا ہے، جو احساسات و جذبات کی چھلنی میں چَھن کر، اس کے دل، اور اس کی بینائی کی صدا بنتی ہے ۔۔۔ یہ کتاب خالد نامی اس شاعر کی بینائی کی صدا ہے، جو اس کی خلوت میں بھی گونجتی ہے، اور جلوت میں بھی۔ وہ صدا ایک دائرہ ہے۔ وہ دائرہ ایک گنبد ہے، جس میں ’’عدم، وجود، عدم، وجود‘ ایسے عوامل اپنے، اپنے وجود کے جواز پر قائم اور دائم ہیں۔
بنیادی طور پر، خالد رؤف قریشی نامی یہ شاعر غزل کا شاعر ہے۔ اس نے نظمیں بھی کہی ہیں، اور ان طبع آزمائیوں میں کسی حد تک کام یاب بھی ہوا ہے۔ وہ اپنی ان غزلوں اور نظموں کا سہارا لے کر، خود کو ایک منفرد شاعر کا درجہ نہ دلا سکتا تھا، کہ شاعر کے لیے یہ ضروری ہے، کہ وہ تاریخِ ادبِ اردو میں اپنا اندراج کروانے کے لیے، کوئی نیا، مجرد، انوکھا کام کرے، وہ کام جسے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ بے شک، الٰہ نامی اس کتاب کی تخلیق سے، خالد نے تاریخِ ادبِ اردو میں ایک اعزازی نام کمایا ہے۔
الٰہ کا اساسی لفظ ہے ’’تلاش‘‘ ۔ یہ تلاش ایک تکون ہے، جس کے زاویے ہیں: ’’فرد، معاشرہ، ماحول۔‘‘ مجوزہ زاویوں میں، گہے سرگوشی ہے، تو گہے شور ، تو گہے سوال ہے، تو گہے جواب۔ بہ ہرحال، ہر زاویہ اپنی ذات میں تلاش نامی ایک سفر کا مستقر ہے۔
اس کتاب میں، اِنسلا کی الفاظ کی ایک لمبی قطار ہے، جس میں ہر لفظ اپنی مجبوری معنی کو ، مقدور معنی بنانے کے لیے، بے قرار اور کارفرما نظر آتا ہے، مثلا أن الفاظ کی یہ نہایت مختصرسی فہرست ملاحظہ کیجیے: ’’ کاوش ، کشمکش، آخرت، روشنی، اندھیرا، تقدیر، جبر و قدر، جزا و سزا، موسم، محسن، وجود، فنا، بقا، خالق،مالک، فاصلہ، دوری، قرب ۔۔۔ لفظ تلاش کے وجود سے ’’سفر، راستہ ، منزل‘‘ ایسے الفاظ بھی جڑے ہیں۔ ان الفاظ کی تہہ داری کے در پہ صدا کیجیے۔ سچ اور جھوٹ دونوں ہی اس صدا کا جواب دیں گے۔
اب یہ بات سامع کی صواب دید پر ہے، کہ وہ سچ اور جھوٹ کی صداؤں میں تمیز اور تفریق کے ہنر رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ مجوزہ ہنر سے عاری ہے، تو اسے تلاش کا سفر جاری رکھنا ہو گا۔ وہ سفر ، اس کی اپنی ذات کا سفر ہو گا۔ اس سفر میں ، سوچ کی کرنیں اور شبہات کے سائے اس کے ہم راہ ہوں گے۔ ہاں، یہ ممکن ہے، کہ اس کا ضمیر، سنگ میل کی صورت میں، اس کا رہ نما بن جائے۔
مجوزہ سفر کا ایک مفروضی خاکہ کچھ انداز سے بنایا جا سکتا ہے: فرد ، تلاش کو علم کا جامہ پہناتا ہے۔ علم کا حصول جستجو کا طالب ہے۔ اس جستجو میں غور و خوض کے عناصر پنہاں ہیں۔ حصول کا مرحلہ سرخ رو ہوتا ہے، تو فرد خود کلامی کے اسلوب میں، اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے، کام یابی کو بروئے کار لاتے ہوۓ: ’’میں سوچتا ہوں (لہذا) میں ہوں ۔‘‘ یاد رہے کہ فکر ذات اور وجود ذات کو ایک دوسرے کے لیے ، لازم و ملزوم ٹھہرایا گیا ہے۔۔۔ فرد اپنے وجود کو ایک حقیقت پاتا ہے، تو اس کی فکر اسے معاشرہ اور ماحول کی جانب لے جاتی ہے۔ یوں وہ دیگر افراد کو دیکھتا ہے ۔ یوں رشتوں، ناتوں اور سماجی روابط کی راہیں استوار ہوتی ہیں۔ وہ راہیں ، فرد کی اپنی ضروریات، تحفظات اور متعلقہ معاشرہ کے نظام کار کی صورتیں گہے وضاحتوں کے ساتھ، اور گہے اشاروں، کنایوں اور حوالوں کے ساتھ، ذہن و دل کی بینائی بن کر آشکار ہوتی ہیں ۔۔۔
بعده ، فرد ماحول کی جانب متوجہ ہوتا ہے، وہ ماحول جس میں مادی اشیاء پر مشتمل، مظاہر موجود ہیں، کہیں عیاں صورتوں میں ، اور کہیں نہاں صورتوں میں۔ یوں فرد، ان مظاہر میں شامل ہر منظر کو پس منظر کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں، اسے بہت سے عوامل اور عناصر نظر آتے ہیں ۔ پھر وہ رہِ تلاش میں دوبارہ گام زن ہوتا ہے، شبہات اور سوالات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے۔ لہذا، وہ خود سے، معاشرہ سے، اور ماحول سے، گہے الگ، الگ انداز میں، اور گہے بہ یک انداز میں، مخاطب ہوتا ہے۔ اس کا کلیدی سوال یہ ہوتا ہے: ان مظاہر کے پیچھے، کون سے اسباب کارفرما ہیں؟ ان اسباب کا مسبب کون ہے؟ وہ کلیدی سوال ، شاخوں کی طرح پھیل جاتا ہے۔
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں،
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
ہم گرچہ بنے ، سلام کرنے والے
کرتے ہیں درنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں ، خدا سے کہیں ، اللہ ، اللہ
وہ آپ ہیں ، صبح و شام کرنے والے
کہہ سکے کون ، یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے، کہ اٹھائے نہ بنے
(مرزاغالب)
فرد کے ذہن و دل میں جگہ بنانے والے شبہات اور سوالات معدوم ہوتے ہیں، تو وہ ایک بے ساختہ انداز میں پکارا اٹھتا ہے:
کوئی تو ہے جو۔۔۔ نظام ہستی ، چلا رہا ہے
(مظفر وارثی)
یک طرفہ تماشا یہ ہے، کہ فرد ، ایجاب و قبول کے باوجود بھی اپنے لبوں پر سوالات سجاۓ رکھتا ہے۔
دھرتی یہ یہ قطرہ ، یہ سمندر کیا ہے
امبر پہ چمکتا ہوا منظر کیا ہے
ماحول کے اندر ہیں مظاہر ، لیکن
مولا مرے ! ماحول سے باہر کیا ہے
(مامون ایمن)
الٰہ نامی اس کتاب میں، شاعر خالد رؤف قریشی کا اسلوب شعرگویی گہے سادہ اور گہے پیچیدہ بیانات ، تخاطب اور خودکلامی سے معمور ہے۔ ملاحظہ کیجیئے
جب تلک دل یہ زندگی میں تھا۔۔۔ اپنے ہونے کی بے خودگی میں تھا
جہاں تعمیر ہوتی ہے، وہاں تکسیر ہوتی ہے۔۔۔ اس تکسیر ہی سے پھر، نئی تعمیر ہوتی ہے (بیانات: سبب/ نتیجہ )۔۔۔
اس کی ہستی کے کچھ قریب ہوں میں
تو پھر میں اک حقیقت ہوں (خودکلامی: اصراف ذات)۔۔۔
تو ہی ہادی ہے، تو ہی مانع ہے
دوری کا جھٹپٹا ہے، کہ تیرا جمال ہے
( تخاطب: إعتراف، سوال )
خالد کی لفظیات میں، ایک اور لفظ کا اضافہ کر لیجیے: ’’ادراک‘‘۔ وہ اس لفظ کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے ، اور گہے اس کی وضاحت و صراحت کے لیے وافر انداز میں استعمال کرتا ہے۔ بیش تر نظموں میں، اس لفظ سے منسوب بہت سے متون و مفاہیم کے مصرعے، خود یک مصرعی نظم بنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مثلا: ’’مری ہر سانس کی کرتا ہے رکھوالی‘‘ (نظم کا عنوان: محافظ )۔۔۔ وہ مجھ کو راہ دکھاتا ہے (نظم کا عنوان: رہ بر )۔۔۔ مرا اپنا تو یہاں کچھ بھی نہیں ( نظم کا عنوان: محرومی)۔۔۔ میرے سجدوں میں عنایت کی کوئی شرط نہیں (نظم کا عنوان: خودسپردگی)، وغیرہ وغیرہ۔
مندرجہ بالا، آخری مصرع کی تقطیع یوں ہو گی: فاع لاتن ، ف ع لائن، ف ع لاتن، ف ع لن۔۔۔ بحرِ رَمَل مثمن سالم مخبون مقصور۔ اس کتاب میں، بہت سی نظمیں اس بحر میں، مقصور رکن میں بھی ہیں، اور محذوف رکن میں بھی۔ چند نمایندہ نظموں کی تقاطیع بھی حاضر ہیں: ’’زباں کو درس دیتے ہیں۔۔۔ م فاعی گن ، م فاعی لن ۔۔۔ بحر ہزج مسدس سالم/ حشر کا میداں سجا تھا۔۔۔ فاع لا تن ، فا ع لاتن ۔۔ ۔ بحر رمل مسدس سالم / کہنے کو اندھیرا ہے، مگر ایک ضیا سی۔۔۔ مف عول ، م فاعی ل ، م فاعی ل، ف عولن ۔۔۔ بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف/ ان دنوں، کچھ عجیب موسم تھا۔۔۔ فاع لائن ، م فاع کن ، فع لن۔۔۔ بحر خفیف مسدس مخبون محذوف / خلاؤں کی وسعت میں، گہرا اندھیرا۔۔۔ ف غولن، في غولن، ف غولن، ف غولن ۔ ۔ ۔ بحر متقارب مثمن سالم / آتش گے، برق و نور کے، خاک و ہوا کے نام ۔۔۔ مف غول، فاع لات، م فا ئی ل، فاع ئن۔۔۔ بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف مخذوف ۔
الٰہ میں، چھوٹی، بڑی بہت سی نظمیں ہیں۔ ان میں بیش تر نظمیں قاری کے دل پر دستک دیتی ہیں، ایک مخصوص دعوت کے ساتھ: مجھے پڑھو اور سوچو۔ قاری پوچھ سکتا ہے: یہ دعوت کس لیے ہے؟ مجوزہ نظمیں قاری کو مسکرا کر ، خود جواب دیتی ہیں: میرے شاعر نے ’’ذکر کرو اور پہچانو‘‘ کے حکمِ ربی پر عمل کی سعی کی ہے۔ اس سعی میں شامل ، تہہ داری کی کارکردگی سے ابھرنے والے مفاہیم، ادراک کا دامن تھامے، ژرف نگاہی سے ہم کنار ہیں، کہ ’’تلاش‘‘ کی یہی طلب ہے۔
اس جائزہ نگار کی نظروں میں دونظمیں ، نمایندہ نظمیں کہی جا سکتی ہیں نوح ، موت ۔
نوح تقویم سے وابستہ ہے۔ یہ ایک عہد کی داستان ہے، وہ داستان جس کے اختتام پر، بنی نوعِ انسان کی ایک نئی داستان مرتب ہونا شروع ہوتی ہے۔ ہم نئی داستان کو ’’تلاش رب‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔۔۔ دوسری نظم کا عنوان ہے، موت۔ یہ بھی یک طرفہ چلن ہے کہ کوئی ذی شعور انسان بھی، رب کا منکر ہوسکتا ہے، لیکن موت نامی ایک حقیقت سے انکار نہیں کرتا۔
خالد رؤف قریشی کے پیغامات کیا ہیں؟ وہ کن امور اور اقوال کی پاس داری کرتا ہے؟ وہ اپنے ماضی کا تجزیہ کس طرح کرتا ہے، اس کا حال کیا ہے، اور وہ مستقبل کے آئینہ میں، اپنے پرتو سے، کس طرح مخاطب ہوتا ہے؟ اس کے نزدیک ’’الہ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ان سوالات کے مختصر جوابات حاضر ہیں: ’’انسان اور رب کے درمیان میں ، ایک واضح رشتہ ہے۔ رب معبود و مسجود ہے، انسان عابد و ساجد ہے۔ انسان مجبور ہے، اور رب مقدور ہے۔۔۔ انسان حیات و موت کے حقائق جانتا اور مانتا ہے۔۔۔ وہ زمانوں اور دیگر مخلوقات کی تواریخ جانتا اور بیان کرنا چاہتا ہے، اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے ۔۔۔ بے راہ روی اسے بھٹکاتی ہے، تو وہ اپنے تئیں، درست راہ ڈھونڈ نے کی سعی کر سکتا ہے۔۔۔ ادیان اسے گناہ سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ وہ ثواب کا متمنی ہے۔ دنیا اور عقبیٰ کے بارے میں سوچ سکتا ہے، سوچتا ہے ۔ وہ لفظ ’’ آخرت‘‘ سے آگاہ ہے۔۔۔ وہ شعور، ذہن، عقل اور فکر کا خواہاں ہے، کہ وہ تلاش حق کے ذریعہ، اپنے رب سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔ وہ کوئی روایتی صوفی نہیں لیکن وہ اپنی ذات کی صفائی لیے، خود کو صوفی بنانا چاہتا ہے۔۔۔ اس کا عقیدہ ہے، کہ رب پالن ہار ہے، جو رزق بھی دیتا ہے ، عزت، ذلت، زندگی اور موت بھی ۔۔۔ بے شک، ہمارا رب باقی ہے، وہ موجود ہے، کہ وہ ہمارے واضح اور غیرواضح تصورات کا ضامن ہے‘‘ وغیر ہم ۔
یہ شاعر ایک مسلمان گھرانہِ میں پیدا ہوا تھا، لہذا ایک روایت کی تقلید میں، وہ بھی مسلمان کہلایا، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ، اس کی زندگی کی شروعات ہوئی ۔ وہ پشاور میں رہا، پاکستان کے دیگر شہروں کے رہن سہن سے آشنا ہوا۔ ایک انجیر کی حیثیت سے، وہ عرب کے صوبہ حجاز کی اس بستی میں بھی گیا، جہاں قبیلہ قریش کے کچھ افراد، برسوں پہلے، مکہ نامی شہر چھوڑ کر، جا بسے تھے۔ خالد نامی اس شاعر کے آباؤ و اجداد ، مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے، پشاور نامی ایک شہر میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ در بدری نہیں، تو اور کیا ہے؟ وہ اب پشاور شہر سے تقریبا پونے دس ہزار میل دور، کینیڈا میں رہتا ہے۔ چہ خوب، اس در بدری میں بھی ، اس نے خود کو بھٹکنے نہیں دیا، بکھر نے نہیں دیا، خود کو سمیٹے رکھا ، اپنی تہذیب کو دل و جاں سے لگائے رکھا۔ الٰہ ، ان حوالوں کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔
ایک اور ضروری بات ۔ تقریبا آدھی صدی ایک سفید فام، عیسائی ملک میں زندگی گزارنے کے باوجود ، خالد ’’تلاش‘‘ کو دلیلوں کی زد میں نہیں آنے دیتا۔۔۔ وہ اپنے رب کو دلیلوں کے بغیر مانتا ہے۔
نقد و نظر کا ایک تقاضا یہ بھی ہے، کہ جائزہ نگار تائید کے ساتھ تردید کو، اور حسن کے ساتھ قبح کو بھی پیش نظر رکھے، اور اتفاق کے ساتھ، اختلاف کا اعلان بھی کسی تردد کے بغیر، برملا انداز میں کرے۔۔۔ الٰہ کی نظموں میں ’’نثری نظموں‘‘ کی شمولیت درست نہیں۔ خالد اب عمر اور طبع آزمایی کے ان ادوار میں ہے، جہاں اظہار بیاں، پختہ گویی کا ایک با قاعدہ اور منظم مظہر ہوتا ہے۔ اے کاش ، خالد نے ، نثری نظم ، کے بجائے ’’غیر مقفی نظم‘‘ کو اس کتاب میں نسبتاً زیادہ جگہ دی ہوتی۔
اردو زبان و ادب کے روایتی مراکز ، پاک و ہند سے ہزاروں میل دور ، ایک غیر اردودان ملک میں رہ کر ، خالد رؤف قریشی نے اس کتاب کی تخلیق سے ایک تاریخ ساز، نیا کام کیا ہے۔ بہ لا شبہ، یہ نیا کام تحسین، داد، اعزاز اور فخر کا مستحق ہے۔
خالد صاحب! مبارکاں ۔
عبد اللہ جاوید – مسی ساگا، کینیڈا –
میں نے خالد رؤف صاحب کی تازہ تصنیف ‘الہ حرف بہ حرف اول تا آخر پڑھی۔ کتاب پر لکھا ہوا ان کا مقدمہ بھی پڑھا۔ ان سے ٹیلی فونی رابطہ ہوا۔ ایک ہی ملک (کینیڈا)، ایک ہی صوبہ انٹاریو کے جڑواں شہروں مسی ساگا اور ٹورانٹو میں رہائش کے باوجود بالمشافہ ملاقات میں کووڈ ۔ ۱۹ عرف کورونا وائرس کی وبا درمیان میں حائل ہو گئی۔ ٹیلی فونی ملاقات نے خاصا طول پکڑا اور خالد رؤف قریشی میرے قریب تر ہوتے گئے ۔ یوں سمجھئے کہ ایک ایک پردہ اٹھتا چلا گیا۔ الٰہ کے مصنف نے اپنے مقدمے میں علاقے کے بارے میں قدیمی تاریخ پر جدید تر تحقیقاتی معلومات کا انبار لگا دیا اور بتایا کہ کسی دیگر سیارے کی مخلوق نے اپنے سیارے کی سونے کی دھاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے زمین پر حکومت کی ، زمینی مخلوق کو غلام بنا کر ان سے کان کنی کروائی۔ ڈھیروں سونا اپنے سیارے پر پہنچانے کے سامان کیے اور محض اس سبب سے زمین کو چھوڑا کہ زمین میں رہائش کرنے سے ان کی عمریں چھوٹی ہو رہی تھیں۔
اس مقدمے کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اس سے اپنے پڑھنے والوں پر اپنے علم کا رعب اور دبدبہ طاری کرنے کے بجائے اس اسلوب میں تحریر کیا کہ پڑھنے والے کو انسٹرکٹ ( Instruct ) بھی کرے اور انٹرٹین ( Entertain ) بھی۔ ایسا اسلوب جو علم میں اضافے کا موجب بنے اور جمالیاتی حظ کا بھی۔ دوسرے لفظوں میں ارسطو کا بوطیقائی انداز اپنایا۔ اس مقدمے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں موضوعیت سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ معروضیت کا التزام رکھا گیا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ مقدمہ مصنف نے خود لکھا ہے۔ مصنف نے میں کو اپنی تحریر سے دور رکھا۔ یہ بڑی حد تک حیران کن اور لائق تحسین ہے۔
میں نے خالد رؤف قریشی کی اس جبلت کا گیان پا لیا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے موتی کو سیپی میں مخفی رکھنے کا خواہاں رہتا ہے۔ اپنی اس ٹیلی فونی بات چیت کے دوران جب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ بندہ تو وہ ہے جو حرمین شریفین سے متعلقہ تعمیراتی تبدیلیوں میں بحیثیت انجینئر کردار ادا کر چکا ہے ۔ تو میں یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ اپنی تازہ کتاب کو جس کا موضوع ہی الٰہ ہے ۔ مصنف نے اپنے ان ذاتی مشاہدات ، تجربات، واقعات سے کیوں معرا رکھا۔ کوئی دیگر مصنف ان کو اولیت دیتا اور ایسا چاہیے بھی تھا۔ باتوں باتوں میں یہ بھی کھلا کہ مصنف عربی زبان بولنے کا اہل ہے اور عربوں کے چند ایک اعلی خانوادوں سے بھی اس کے شخصی اور ذاتی تعلقات رہے ہیں ۔ متذکرہ امتیازات میں بیشتر کتاب سے متعلق ( Relevant ) ہیں۔ مصنف کی اس منطق کو میں وقعت دیتا ہوں کہ وہ اس نکتے پر زور دینا چاہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ خالق کائنات اور سیارگان کے دریافت شدہ اور ہنوز خارج از علم و دریافت جملہ نظام ہائے شمسی کا خالق، مالک اور مختار ہے۔ اس کی ربوبیت اور خلاقی کو کسی ایک علاقے، ایک قوم یا ایک دین، عقیدے اور مت تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے لیکن ایسی بھی کیا پابندی کہ اپنے پڑھنے والوں سے مصنف اپنے منفرد امتیازی مشاہدات کو پردہِ اخفا میں رکھے۔
خالد رؤف قریشی نے اپنے شعری مجموعے الٰہ کا انتساب ان کے نام کیا ہے جن کے ذہن اور قلم خالق موجودات و غیر موجودات کی تعریف بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے فوری بعد ایک شعر درج کیا ہے جس کے مطابق ان کا دل جانتا ہے کہ خدا ہے اور ہر جگہ ہے جب کہ ان کی اندھی آنکھیں گماں میں مبتلا ہیں اور سوال کر رہی ہیں ، کہاں ہے؟
مقدمے کے بعد چار مصرعوں پر مشتمل ایک نظم به عنوان سوچ موجود ملتی ہے۔ آدمی اور سوچنے کے ذکر کے ساتھ ہی مشہور قدیمی کہاوت یاد آتی ہے آدمی سوچتا ہے، خدا ہنستا ہے لیکن ہمیں اس کا احساس ہے کہ خالد رؤف قریشی کی سوچ کا مرکزی محرک ‘خدا ہے۔ اس سبب سے اس کا امکان نہیں کہ ان کے سوچنے پر خدائے تعالی کو ہنسے آئے گی ۔
یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ خالد رؤف قریشی کی سوچ کا رشتہ جڑا ہے۔ اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی سوچ کسی متھ ( Myth )، مذہبی عقیدے یا کسی خاص مکتبہ فکر سے بندھی ہوئی ہے۔ ان کی سوچ کا مزاج استفہامی ہے، ان کی سوچ سوال کرنے والی ہے۔ ایک آزای فکر کے علم بردار ( Free thinker ) کی سوچ۔ ان کی ایک نظم کا عنوان خدائے تعالی سے
ہی صرف سوالیہ نشان ؟‘ ہے۔
اپنی نظم ’؟ میں وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں خدا کیا ہے؟ ان کے اس سوال کے جواب میں لوگ کہتے ہیں۔ جہاں کا خالق ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں،
جہاں کیا ہے؟ لوگ جواب دیتے ہیں جہاں تو سب کچھ ہے ۔ لوگوں کے جواب سے انھیں تشفی نہیں ہوتی اور وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ ان کی سوچ خارج سے باطن کی جانب اپنا رخ کر لیتی ہے۔ ان کی سوچ ساکاری نہیں ہے، ہزاکاری ہے وہ اس کے طالب نہیں کہ حقیقت منتظر ان کو لباس مجاز میں نظر آئے۔ ان کی سوچ میں جو خدا ہے وہ ان کی ذات سے وابستہ ہے۔ اس خدا کی وہ ہمہ وقت پرستش کرتے رہتے ہیں۔ ان کا باطن ہمہ وقت سجدہ ریز رہتا ہے۔ ہر مشکل مرحلے پر اس کا نام لے کر اسے آواز دیتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں، اس کی منتیں کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے ہر منصوبے میں اس کا آسرا تلاش کرتے ہیں۔ خدا ان کا رہنما ہے، جو ان کے راستوں سے مشکلات کے کانٹے دور کرتا ہے۔ خدا موجود ہے، لیکن دکھائی نہیں دیتا۔ وہ خدا کی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں۔
خدا کیا ہے
کہ جو موجود ہے
لیکن نظر آتا نہیں مجھ کو
جو مجھ سے بات کرتا ہے
مگر میں سن نہیں سکتا
میں اس کو چھو نہیں سکتا،
مگر محسوس کرتا ہوں
(نظم : ‘خدا کیا ہے)
پوپ گریگوری نے 600 عیسوی میں خدا کو اجالے سے نسبت دے کر اور انسان کو اندھیرے سے متعلق کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسان خدائے تعالیٰ کی حقیقت کو جان نہیں سکتا۔
میرے پاتال کے اندھیرے میں
تو خدایا! کبھی نہ اترے گا
اور میں انجان روشنی سے تری
ظلمتوں میں بھٹکتا جاؤں گا
نظم اندھیرا، اجالا
اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نور کو دیکھا نہیں جا سکتا، محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی سے عرض کیا کہ وہ جلوۂ باری تعالی کا دیدار کرنا چاہتے ہیں تو ان کو جواب ملا ’لن ترانی یا موسی” ”اے موی تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ۔“
جب ’الہ کا خیال کیا جاتا ہے تو اس کے دیدار کی تمنا ضرور بے تاب ہوتی ہے۔ آدمی اس کے دیدار سے محروم ہو کر اس کی معرفت کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اس راستے پر اس کا واسطہ مظاہر قدرت سے پڑتا ہے۔ مظاہر قدرت اسے کثرت جلوہ سے دوچار کرتے ہیں۔ وہ پلٹ کر اپنی طرف بار، بار رجوع ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی فکر موضوعی سے معروضی ، معروضی سے موضوعی میں ادلتی، بدلتی رہتی ہے اور الٰہ تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ کہنا تو آسان ہے “جس نے اپنے نفس کو پہچانا ، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔“ لیکن اس کو عملی شکل دینا اور رب کو پہچاننے کی سعادت سے بہرہ ور ہونا بے حد مشکل ہے ۔ دوسری صورت یہ بتائی جاتی ہے کہ آدمی اپنے کو پہچانے اور اپنی دنیا اور کائنات کو پہچانے۔ اور تیسرے مرحلے پر اپنے، اپنی دنیا اور کائنات کے خالق کو پہچانے۔
اسلامی فکر میں یہ عقیدہ بھی موجود ملتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے خود ہی اپنے آپ کو پہچنوایا ہے۔ وہ اس طرح کہ انسانوں کی تخلیق سے قبل جمیع انسانیت کو ایک مقام پر جمع کر کے انھیں اپنے دیدار سے مشرف کیا اور ان کو تلقین کی کہ وہ اچھی طرح اپنے خالق کو پہچان لیں۔ چنانچہ ہر انسان اپنے اندرون میں اپنے خالق کی پہچان لیے، رب کے ہونے کے احساس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
اس عقیدے یا نظریے کے تسلسل میں یا اس سے ہٹ کر بھی اگر سوچا جائے تو دیگر شواہد بھی ہمارے سامنے آتے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ‘الٰہ نے انسان کو اپنی موجودگی اور پہچان کے ذرائع مہیا کیے۔ انسانوں ہی میں سے نبیوں اور رسولوں کا انتخاب کر کے عہد در عہد ان کا تعین کیا کہ وہ خالق حقیقی کی پہچان ہی نہیں بلکہ اس کے احکام کی اس کے بندوں میں اشاعت کریں۔ ان میں سے چند ایک کو صحائف الوہی اور کتاب ہائے مقدسہ سے بھی نوازا (وحی غیبی، کشف اور فرشتوں کی وساطت سے )۔ الٰہ نے انسان کو عہد بہ عہد حرام و حلال سے آگاہی اور اوامر و نواہی سے واقفیت مہیا کی ۔۔۔ نبیوں اور رسولوں کے علاوہ عالموں ، شریعت اور طریقت کے رموز، نکات و اسرار سے آشنا بزرگوں، اولیا اللہ نے ضروری خدمات انجام دیں اور عصر حاضر میں بھی انجام دے رہے ہیں۔ اساتذہ اور والدین اور خاندان کے بزرگ بھی اپنے اپنے حلقوں میں تعلیم و تربیت کی مد میں اپنی اپنی بساط اور سہولت کے مطابق نسل در نسل انسان کو ایک اچھا انسان بنانے میں مصروف ہیں۔ عالم انسانیت میں یہ سب ایک نظام، ایک کلچر کی صورت میں موجود ملتا ہے۔ مذاہب کےعلاوہ، انسانیت اور اخلاقیات کے عقائد اور اصول اس نظام کو جاری و ساری رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
الٰہ کے تعدد میں بڑا تنوع دیکھنے میں آیا۔ عناصر اور مظاہر قدرت کی پرستش کے عہد میں ان کی تعداد زیادہ مشاہدے میں آئی۔ اس کے بعد ثنویت اور تثلیث کے دور آئے جو عصر حاضر میں بھی موجود ہیں۔۔۔ ثنویت میں خیر اور شر کے الٰہ کا تصور ملتا ہے۔ یزداں کی تثلیث میں الٰہ اور الوہیت تین کے اشتراک پرمشتمل ہوتی ہے ۔ عیسائیت سہہ اساسی ہے۔ الٰہ پدر، الہ پسر اور روح القدس( God Father , God Son and the Holy Ghost )۔ ویدک متھ میں برہما کی حیثیت مرکزی ہے ۔ وشنو اور مہیش خیر اور شر کے دیوتا ہیں۔۔۔ ہندو دھرم میں رام کو بھی ’الٰہ کا مرتبہ دیا گیا ہے۔ یہ ایک بھر پور خاندان کا رکن ہے اس کی سوتیلی ماں اپنے پتی کو جو راجا ہے بہکا کر اسے بارہ برس کے بن باس پر روانہ کروا دیتی ہے تا کہ رام کی غیر موجودگی میں راج سنگھاسن اس کے اپنے پوت کو میل جائے جب کہ اس کا پوت کپوت ثابت نہیں ہوتا اور اپنے سوتیلے بھائی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جب رام، سیتا (پتنی) کے ساتھ ملک کے جنوبی علاقے کے جنگلوں کی جانب روانہ ہوتا ہے تو رام کا بھائی لکھن (لکشمن) اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک نوع کی تثلیث سامنے آتی ہے۔ اس تثلیث کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ارکان میں ایک عورت (سیتا دیوی ہے)۔
ہندومت میں ’الٰہ کے بارے میں یہ متھ ( Myth ) بھی ملتا ہے کہ دیوتا کرشن ( من موہن کرشن کنہیا ) نے آدمی کے روپ میں ایک سو بیس برس گزارے، گویں چرائیں، مرلی بجائی، مرلی کی دھن پر گوپیوں کو نچایا، رادھا سے محبت کی اور واپس دیوتاؤں کے مسکن ، آسمان پر لوٹ گئے ۔
خالد رؤف قریشی نے عرفان نفس اور عرفان کائنات کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی بہت ساری نظموں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ سب تیرا ہے، دروازے ، اکیلا ، خلا’ کھڑکی سے ، ’سوچتا ہوں ، دنیا کدہ ، مختارزماں، بخشش، ادراک ، وتسلسل ، منبع ، لمحہ حاصل ، کوہ گراں، کنچے‘، سوال، ’موجیں، ’دنیا‘، مسلمان اور کئی دیگر منظومات ۔۔۔ ان منظومات میں چند ایک دیگر مفکرین کی فکر سے ماخوذ ہیں جیسے نظم ‘اکیلا پیسکل( Pascal ) سے نظم ’خلا امانوئل کانٹ سے ادراک آ گسٹائن ( Augustine ) ہے۔۔۔ آئیے مندرجہ بالا منظومات میں سے کچھ اشعار آپ قاریوں کی رفاقت میں پڑھتے ہیں:
زندگی کے تمام دروازے
بند ہو جائیں تو مرا خالق
کوئی رستہ نکال لیتا ہے
بے کسوں کو سنبھال لیتا ہے
شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو گا جس کی زندگی میں یہ مرحلہ نہ آیا ہو گا کہ اس کے چاروں اور دروازے بند نہ ملے ہوں البتہ یہ ضروری نہیں جب ایک آدھ یا کئی، یا سب دروازے کھلے ہوں گے تو اس نے اس کا کریڈٹ الہ کو دیا ہو۔۔۔ ہر کوئی اپنی مساعی یا ہنرمندی اور فراست پر نازاں ہو گا۔ اپنے درج بالا شعر میں خالد رؤف قریشی واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ بند دروازے کھولنے اور رستہ نکالنے والا صرف اور صرف الٰہ ہے۔
ان مصرعوں کو ملاحظہ کیجیے
سب تیرا ہے
مرا اپنا تو یہاں کچھ بھی نہیں
تیرے ہی لب ہیں جو اظہار مجھے دیتے ہیں
تیری آنکھیں ہیں جو راہیں مجھے دکھلاتی ہیں
تیرے کانوں سے ساعت ہے مری ہستی کی
تیری دھڑکن ہے جو اس دل میں دھڑکتی ہے مرے
سب تیرا ہے
مرا اپنا تو یہاں کچھ بھی نہیں
( نظم سب تیرا ہے)
کیا آپ ان مصرعوں کو پڑھ کر حیران نہیں ہوئے؟ کیا آپ نے کہیں اور یہ رویہ دیکھا ہے کہ شاعر نے خارجی مظاہر کے علاوہ اپنے آپ میں اس قدر صاف طور پر الٰہ کو موجود، دریافت کیا اور کروایا ہے۔ آپ نے اور میں نے یہ تو بار، بار پڑھا ہو گا کہ الٰہ اپنے نیک اور خاص بندوں کے ہاتھ بن جاتا ہے اور دیگر اعضائے جسمانی، لیکن یہ کہیں لکھا نہ ملے گا۔۔۔ انسان ’الٰہ سے مخاطب ہو اور کہہ رہا ہو’’ تیرے ہی لب ہیں جو اظہار مجھے دیتے ہیں۔۔۔ وغیرہ۔ جب کہ وہ ’الٰہ کا منتخب بندہ خاص ہونے کا دعویدار بھی نہ ہو۔ نظم سب تیرا ہے الٰہ کو سمجھنا انسانی عقل کے لیے ممکن نہیں۔ پوپ گریگوری600 عیسوی۔ ( نظم ‘اندھیرا اجالا)
الٰہ علم کے سلسلے میں ہونے والی قدغنوں کو رفع کرتا ہے ہکانٹ کا
نظریہ God fills gaps in knowledge ‘‘ (نظم: خلا)
سینٹ اینسلم اوف کینٹر بری Saint Anselm of Canterbury کا
تصور الٰہ۔ (نظم تھے گر میں سمجھتا ہوں)
آئیے ہم یہ مصرعے پڑھتے ہیں:
میرے رب کی یہ ساری قدرت ہے
اس کے ہونے سے میرا ہونا ہے
میں جو موجود ہوں تو وہ بھی ہے
اس کے ہونے کی میں ہوں خود ہی دلیل
( نظم: دلیل)
دیکھیں یہ مصرعے کہا کہتے ہیں
وہ ایسے وقت کے لمحات میں
کیسے دکھے گا
کہ جو انسان کے ادراک نے
خود ہے تراشے ہیں۔۔۔
کہ جن اوقات کی ترکیب ہی
بے فائدہ ہے
کہ باہر اس زمیں کے
اس کا کچھ مصرف نہیں ہے
کہ لمحوں کا تسلسل
خود ہے اک دھوکا
گماں کا۔۔۔
(نظم: محتار زماں)
خالد رؤف قریشی نے شاعری کی زبان میں راہ سلوک کے اس مرحلے اور مقام کو موضوع بنایا ہے، جس کو تصوف کی اصطلاح میں عالم شطح کہا جاتا ہے۔۔۔ حضرت بایزید بسطامی سے منسوب کر کے اس عالم کو تصور حق‘ کا نام دیا گیا ہے۔۔۔ حضرت کو اور حضرت کے بیشتر بیانات کو سمجھنا قریب، قریب ناممکنات میں سے ہے۔
پھر اس نے (الٰہ ) اپنے آپ میں
مجھ کو سمو لیا‘‘
(انظم شطع)
ہم اس کو
فاصلوں میں ڈھونڈتے ہیں
کہ کتنا دور ہے وہ (الٰہ)
۔۔۔مگر وہ فاصلوں کی قید میں
کیسے سمائے ۔۔۔
کہ وہ آزاد ہے
اپنی ہی تخلیقات کی ان بندشوں سے
( نظم: فاصلے)
ہم اور آپ تصوف کے انتہائی ادق مسائل کو خالد رؤف قریشی کی شاعری کے وسیلے سے حل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں ۔ اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہوئے تصور الٰہ کے اس نظریے تک آ پہنچے ہیں کہ ہر فرد اپنا تصور باری تعالی رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں خالد رؤف قریشی قرآن کریم سے گواہی لے رہے ہیں۔
کہ جو تیرا خدا ہے
تو اس کو پوجتا جا
کہ جس اللہ کو
میں پوجتا ہوں
پوجتا ہوں ( أظم: لكم دين كم)
آپ نے اور میں نے بڑی حیرانی سے ان کی نظم بخشش کا مطالعہ کیا ہو گا۔۔۔ اس نظم میں ’الٰہ کی نعمتوں کے آغوش میں پرورش پانے والے انسان اور اس کی زندگی کا خاکہ سا ملتا ہے۔ حیرانی کا سبب یہ ہے کہ معمول کی نعمتوں کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ یہ نعمتیں غیرمعمولی ہو گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ الٰہ کی بخشش پہلی مرتبہ ہو رہی ہے اور دنیا کے پہلے انسان کو اس سے ، نوازا جا رہا ہے۔۔۔ یہ تاثر، آپ نے دیکھا کہ ضمیر واحد متکلم کی تکرار سے تشکیل دیا گیا ہے ۔ نظم کا آغاز ان مصرعوں سے ہوتا ہے۔
یہ جو تحفہ دیا ہے تو نے مجھے
یہ جو میں کھل کے سانس لیتا ہوں
ان مصرعوں کی لفظیات سے یہ اصرار کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ الٰہ نے سانس لینے کی صلاحیت بخشی ہے، جس پر زندگی قائم ہے، صرف اور صرف اس نظم کے “میں” کو دی ہے۔۔۔ آگے چل کر پوری نظم میں ایسا ہی تاثر اور اس سے تشکیل پائی ہوئی فضا ملتی ہے۔
نظم بخشش میں صیغہ واحد متکلم کا استعمال انسان کے لیے وقف تھا۔ نظم پیار میں لفظ “میں” الٰہ سے منسوب ہے۔ اس نظم کی اساس حدیثِ قدسی پر ہے اس نظم میں ہم مندرجہ ذیل مصرعوں کو دہرائیں گے:
میں اس کی آنکھ بنتا ہوں
میں اس کے کان بنتا ہوں
میں اس کے ہاتھ بنتا ہوں
میں اس کے پیر بنتا ہوں
ان مصرعوں کو دہرانے کے بعد ہم چند جڑواں مصرعے پڑھتے ہیں:
جو مجھ سے مانگتا ہے وہ
میں اس کو خوب دیتا ہوں
اماں مانگے تو اس کو میں
اماں مطلوب دیتا ہوں
وہ ڈرتا موت سے ہے جب
میں دینے میں جھجکتا ہوں
میں اس کی موت کے لمحے
زرا آسان کرتا ہوں
(نظم: پیار)
ہم اور آپ جانتے ہیں کہ شاعری جستہ، جستہ پڑھی جاتی ہے۔ رواں نہیں پڑھی جاتی ۔
آ گسٹائن( Augustine) ء500ء کے فلاطونی فکر افلاطون ( Plato ) اور پلوٹینس ( Plotinus ) سے متاثرہ اقوال پر مشتمل نظم ‘ادراک‘ آپ نے اور میں نے جن مصرعوں پر زور دیتے ہوۓ پڑھی، وہ درج ذیل ہیں:
میں جانتا ہوں کہ میرا دماغ افضل ہے
میں جانتا ہوں مجھے جاننے پہ قدرت ہے
ارادہ کرنے پر قادر مرا اردہ ہے
بادی انظر میں یہ مصرعے خود ستائی اور تعلی کا ماحول بناتے ہیں لیکن نظم کے آخری بند میں جو اقرار یا اعلان سامنے آتا ہے وہ الٰہ کے نظام قدرت کو ان تعلیوں کا محرک ثابت کر دیتا ہے:
مری یہ یاد پہ قدرت
مری یہ سوچ ، سمجھ
مرا يقين، إراده
تمام جز ہیں یہ تیرے
نظام قدرت کے
تمام مل کے مجھے آدمی بناتے ہیں
(نظم: ادراک)
ہم اور آپ یہ بھی محسوس کیے پنا رہ نہیں سکتے کہ خالد رؤف قریشی اپنے سوچنے کے عمل ( The process of thinking ) کا تجزیہ کرنے کی سعی سے بھی اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکتے۔۔۔ خیالات کی موضوعیت اور معروضیت کے بارے میں وہ سوچتے رہتے ہیں۔ ’’پھر کہاں سے یہ خیالات چلے آتے ہیں؟‘‘ (نظم: کیا میں خود اپنا سبو ہوں؟ )
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ساری بحث تحمید کی تان پر ٹوٹتی ہے
(نظم: آمنا و صدقنا)
ہم اور آپ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ تسلسل سے زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔
بقول غالب:
صبح ہوتی ہے ، شام ہوتی ۔
عمر یونہی ، تمام ہوتی ہے –
مغربی فکر، ادب اور نفسیات میں ’روٹین” کو زندگی کا آزار بتایا گیا ہے ۔ خالد رؤف قریشی اسے بجاطور پر الٰہ سے جوڑتے ہیں۔ جب ہم نظم کا عنوان الیوژن ( llusion ) دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ ہمیں یہ پڑھنے کو ملے گا یہ توہم کا کارخانہ ہے لیکن ہمیں یہ پڑھنے کے لیے ملتا ہے:
کہ جیسے ہم کھڑے ہیں
اور گزرتا جا رہا ہے وقت
اور یہی نہیں، بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خالد رؤف قریشی الٰہ کی بارگاہ میں اپنا یہ سوال یا فریاد پیش کر رہے ہیں۔
خداوندا
یہ کیسا دور ہے
جینے کا
مرنے کا
پھر اس کے بعد برزخ میں بھٹکنے کا۔۔۔؟
(نظم: Illusion )
منبع کے عنوان کے تحت کہی گئی نظم میں یوں تو ایک سے زائد نظریات، اور تو اور سائنسی فکر بھی گڈمڈ ملتی ہے، لیکن آپ اور ہم یہ ضرور محسوس کرتے ہوں گے کہ نظم کا اصل محور نظریہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کےتانے بانے سے تشکیل پا رہا ہے۔
(نطم : منبع)
مندرجہ ذیل اشعار پڑھ دیکھتے ہیں:
ایک ہو جائیں مری روح، مرے جسم و دماغ
ایک لمحہ وہ نصیبوں سے اگر مل جائے
کہکشاں جیسے سمٹ آئے مرے آنگن میں
جیسے سورج سا نکل آئے اندھیری شب میں
پچول کھلنے لگیں جلتے ہوئے انگاروں پر
تتلیاں رقص سا کرنے لگیں صحراؤں میں
برف گرنے لگے جلتی ہوئی دو پہروں میں
دل کے زخموں پہ کوئی رکھ دے وفا کا مرہم
او پر درج کیے ان چار اشعار نے شعری ابلاغ کے جادو سے ہمیں متاثر کیا۔ متاثر تو کیا ہی، لیکن ہمیں ہمارے لوکیل اور وقت سے اٹھا کر اس لوکیل اور وقت میں پہنچا دیا جو ان اشعار سے تشکیل پایا تھا۔ شاید ایسے ہی کرشمے کو اظہار و ابلاغ کے بجائے ٹرانسپورٹیشن ( Transportation ) کا نام دیا جاتا ہے۔
اس ٹرانسپورٹیشن نے ہمیں جہاں پہنچا دیا وہاں (شاعر کے گھر کے آنگن میں ) کہکشاں اتری تھی اور غیر متوقع طور پر رات میں اتنی روشنی تھی جیسے سورج نکل آیا ہو اور اس طرح غیر متوقع طور پر دیکتے ہوئے انگاروں پر پھول کھل جائیں۔ گھر کے باہر صحراؤں میں تتلیاں رقص کریں، تپتی دوپہروں میں برف گرنے لگے اور شاعر کے دل میں محبوب کی بے وفائی سے لگے ہوئے زخموں پر (غیر متوقع پر محبوب باوفا ہو جائے) وفا کا مرہم رکھے۔
اس ماحول، فضا اور وقت میں پہنچ کر ہمیں اس کا ادراک ہو سکتا ہے کہ جس حاصل زیست لمحے کی شاعر تمنا کر رہا ہے وہ شاعر کی زندگی میں کا یا کلپ پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے۔ یوں کہ گمان حقیقت میں بدلے، علم اور سوچ کے سب بھید کھل جائیں ۔ شاعر کی بصارت اور بصیرت خلاؤں کی وسعتوں کی پیمائش کرے، نوشتہ تقدیر کا لکھا سامنے آ جائے ۔۔۔ سب سے اہم اور بڑی غیرمتوقع کامیابی جو شاعر کا نصیب بنے وہ یہ ہو کہ الٰہ شاعر کی فہم کے دائرے میں آ جائے ۔
(نظم: لمحہ حاصل)
وقت کی تعبیریں اتنی ملتی ہیں کہ ہم اور آپ الجھ کر رہ جائیں۔ خالد رؤف قریشی وقت کو کوہ گراں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ تعبیر یا تشبیہ نئی نئی سی لگتی ہے۔ آئیے ان کے چند مصرعے پڑھتے ہیں:
وقت لمحوں میں بٹ گیا ہے اب۔۔۔
ایک کوہ گراں تھا نظروں میں
سامنے ہے کہ ہٹ گیا ہے، اب۔۔۔
اس کی ہستی کے کچھ قریب ہوں میں
دل کی منزل کے آس پاس ہے رب‘‘
خالد رؤف قریشی بحیثیت سالک راہ سلوک یا راه حقیقت اس منزل پر پہنچنے کا ادراک کر رہے ہیں، جہاں وقت بندے اور الٰہ کے درمیان مزید حائل نہیں رہتا اور جو پہلے کوہ گراں دکھائی دیتا تھا، راستے سے ہٹ جاتا ہے، کٹ جاتا ہے، لمحوں میں بٹ کر غائب ہو جا تا ہے۔ زندگی کے طویل صحرا کی مانند جو راہ سلوک کی اس منزل پر اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
آدمی، خاص طور پر سوچنے والا آدمی یا محسوس کرنے اور جذباتی طور پر محسوس کرنے والا آدمی، جیسے شاعر، ادیب ، مصور، موسیقار، فنکار اپنے آپ کو دوام دینے کی تمنا کرتا ہے۔ خالد رؤف قریشی اس فطری اور جہتی خواہش کی تحمیل کے سلسلے میں اس دلیل سے مدد لیتے ہیں کہ ان کے وجود میں الٰہ شامل ہے۔
مجھ میں تیرا وجود ہے شامل
تو مری روح کا ہے اک عنصر
میں ہوں باقی
میں_ مرنہیں سکتا‘‘
نظم ( عنصر )
نیند اور خواب کی ماہیت اور معنویت صرف اور صرف ماہران نفسیات تک محدود نہیں، روحانیت کی دنیا میں بھی ان کا ایک مقام اور فنکشن ہے۔ کشف اور کرامت کے علاوہ یہ رہبری کا موجب بنتے ہیں ۔ دین اسلام یا یوں کہا جائے کہ دین ابراہیمی میں بھی نیند اور خواب خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب اور تعبیر خواب تک پہنچنے کی صلاحیت زبان زد خاص و عام ہے۔ عام آدمیوں میں بھی رویائے صادقہ کے شواہد عام ملتے ہیں۔ خالد رؤف قریشی نے بجا طور پر اس موضوع پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔
جب نیند میں ہوتا ہوں میں
اور نیند مری ہوتی ہے
جب خواب مجھے دیکھتے ہیں
اور میں بھی انیہں سوچتا ہوں
میرے سب فکر و خیال
میرے نا گفتہ سوال
میرے خلاق سے جا ملتے ہیں
( نظم: نیند اور خواب)
حوالہ: Rabbi Elijah bin Soloman Zalman
تو نے بھیجی ہے جو تحریر اسے کیسے پڑھوں خالد رؤف قریشی اپنی ایک نظم کا آغاز اس مصرعے سے کرتے ہیں۔ آگے چل کر ہم ان اسباب کی تفاصیل سے آگاہ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ہم پر یہ بھید کھل جاتا ہے کہ مذکورہ مصرع میں تو‘ سے مراد’ الٰہ ہے اور تحریر سے مراد قرآن پاک ہے۔ (نظم: تحریر)
یہ کرشمہ ربوبیت کا ہے
آدی کل میں آج رکھتا ہے
آپ اور ہم مندرجہ بالا مصرعوں کو پڑھ کر اچنبھے میں پڑ جاتے ہیں کہ خالد رؤف قریشی نے آدمی کے وقت کے بارے میں کس قدر جامع بات کتنے تھوڑے لفظوں میں بیان کر دی ہے۔
( نظم: آگہی)
خالد رؤف قریشی، اپنے پڑھنے والو کو یہ بتا رہے ہیں کہ الٰہ اپنے بندوں اور بطور خاص سالکان راہ حق کا امتحان دنیا کی چمک دمک اور رونقوں کنچوں کے ذریعے لیتے ہیں۔
( نظم: کنچے )
آپ اور ہم ایک طویل نظم پڑھتے ہوۓ سوچتے ہیں کہ ۲۳۴ تا ۲۴۷ صفحات پر پھیلی ہوئی نظم میں جزیات کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ
قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
(نظم: نوح)
آپ اور ہم جانتے ہیں کہ جسے راہ سلوک کہا جاتا ہے وہی راہ طریقت ہے جو سالک کو الہ کے قریب پہنچاتی ہے۔
(نظم: خدائے دروں)
حوالہ: ملا صدرالدین شیرازی ۱۲۰۰ ء
کتاب میں ہمیں خالد رؤف قریشی کے ایک خواب کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس خواب میں حسن ہے، چاند، تارے، بادل، آفتاب کی کرنیں، قندیلیں، صاف پانی کا جرنا، مرمریں پر چھائیں، خاکہ سا ہے اور خود وہ بھی موجود ہیں اور حسن نایاب کے نظارے میں محو ہیں۔
خالد رؤف قریشی کے بارے میں آپ اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ ان کا مسئلہ کیا ہے ۔ مندرجہ ذیل قطعہ پڑھتے ہیں:
خالق کے خد و خال میں بھٹکا ہوا ہے دل
صحرا میں اک صلیب پہ لٹکا ہوا ہے دل
کیسے ہیں ہست و نیت کے ہر سمت یہ سراب
کب سے اس سوال میں اٹکا ہوا ہے دل
( قطعه: سوال )
تصوف کے ایک رستے میں سالک کو قبالہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ سفیرات کی منزلوں سے گزرنے کے مرحلے آتے ہیں۔ ان صوف، ’الٰہ کا صوفیانہ کام ہے۔
( نظم: إن صوف)
آپ نے اور میں نے دیکھا ہے خالد رؤف قریشی کی شاعری میں اکثر و بیشتر میں تو میں بدل جا تا ہے یا اتمام پذیر ہوتا ہے۔ زیر نگاہ نظم کا آغاز ہوتا ہے مندرجہ ذیل دو مصرعوں سے:
سمندر کی موجیں مرے پیچھے ،پیچھے
میں گرتا سنبھلتا چلا جا رہا ہوں
اور نظم کا اتمام ہوتا ہے
مگر میرے دل میں
ہے اک ذات تیری
بھروسا ہے اس پر
یقیں میرا پور
مجھے علم ہے کہ
اگر تو ہے ہادی
تو ہر راستہ ہی
اگ چہ ہے مشکل
وہ سچ راستہ ہے
( نظم: موجیں)
خالد رؤف قریشی کے مطابق ‘الٰہ ان کی خارجی شخصیت اور داخلی دونوں شخصیات سے یکساں ہم رشتہ ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر وہ دعویدار ہیں۔
’’میرا گر جا، مری مسجد ہے، یہ مندر میرے‘‘
قطعه بلاعنوان ، ص ۲۰۵
آئے یہ شعر پڑھیں اور چونکیں:
پھر اپنے آسماں پر خدا اک بٹھائیں گے
اس کو ہی ہست و نیست کا مالک بنائیں گے
(نظم: Yehweh )
عہد نامہ قدیم اور تورات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں بااثر آدمی اپنا خدا کا تصور علیحدہ رکھا کرتا تھا اور عبرانی زبان میں خدا کا نام Yehweh تھا۔
ہم اور آپ مجذوب، حالت جذب، مجذوب کی بڑ جیسی اصطلاحوں اور لفظیات سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ دوسری صدی عیسوی میں بقول خالد رؤف قریشی ، یہودیوں کے مشہور، ربیع اسماعیل علیثہ نے حالت جذب میں ایک شبیہ دیکھی اور اس کو، جذب کے مرحلے کے پورا ہونے کے بعد، پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا اور کتاب تصنیف کر دی۔ کتاب کا نام تھا شیورقمع ( Shiur Qumah ) بیشتر لوگوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔
(نظم : Shiur Qumah )
ہماری لفظ ، لفظ ، مصرع ، مصرع ، نظم، نظم بڑھتی ہوئی پہچان کے مطابق خالد رؤف قریشی ، کسی نہ کسی ڈھب سے راہ سلوک پر گامزن ہے۔ یہ اور بات کہ وہ دنیا اور آدمی، زندگی اور موت کے بارے میں منفرد فکر کے مالک ہیں۔ وہ تارک دنیا نہیں ہیں۔ وہ عمل کے قائل ہیں۔ وہ عظمت آدم کے ماننے والے ہیں لیکن وہ انسان کو الٰہ کا حسن کمال ٹھہراتے ہیں۔ (نظم: دنیا)
شیخ شہاب الدین سہروردی کی تشریح کے مطابق دنیا عالم امثال ہے۔ یہاں جو کچھ ہے وہ الٰہ کے نور پر قائم ہے۔ عالم انوار درجوں میں بٹا ہوا ہے اور تنظیم جہاں کا باعث بنتا ہے۔ عالم انوار کا مرکز اٰلہ ہے۔ ( نظم: نورالانوار )
اپنے بارے میں پی سوچنا ممکن ہو تو ہو لیکن سچ بولنا قریب، قریب ناممکن ہے۔ خالد رؤف قریشی نے اپنے بارے میں جو سوچا وہ صفحہ قرطاس پر اتار دیا ہے۔ ہم نے اور آپ نے پڑھ بھی لیا ہے۔ ( نظم: مسلمان)
ہم یہ بڑی حد تک سمجھ چکے ہیں کہ خالد رؤف قریشی ایسے شاعر ہیں جو جیسے، تیسے کچھ نیا، کچھ اوریجنل کر دکھاتے ہیں۔ اس مصرعے کو لیجیے:
”یہ جسم میں نے جس میں گزاری ہے زندگی‘‘ زندگی گزرتی ہے، گزاری جاتی ہے۔ گھر میں، گھر سے باہر، دیس میں، پردیس میں وغیرہ، وغیرہ لیکن جسم میں زندگی گزارنے کا خیال کتنا انوکھا، کتنا ناموں اور کتنا نیا اور اوریجنل ہے، لیکن ہے کتنا حقیقی ۔ کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے؟
متذکرہ مصرع کی جانب لوٹتے ہیں اور اس سوال کا سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جسم کی اس عارضی قیام گاہ میں، قیام کرنے اور زندگی گزارنے والا ‘میں’ کون ہے؟ یہ تو صاف طور پر عیاں ہے کہ وہ جسم سے قطعی مختلف وجود ہے۔ ایک ایسا وجود جو نہ صرف جسم میں قیام پذیر ہے بلکہ جسم کے اعضاء و جوارح کو اپنے کام میں لا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر جسم کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، جسم کے کانوں سے سن رہا ہے۔ وغیرہ، وغیرہ اور تو اور میں کی محبوبہ کو، میں کا جسم چھو رہا ہے اور جنسی حسیت کا لطف اٹھانے کا موقع دے رہا ہے۔۔۔ اور ہاں جم کے ذریعے سے میں نے ’الٰہ کی بارگاہ میں سجدوں کے نذرانے پیش کیے۔۔۔ شاعر کو ایک کٹھن مرحلہ درپیش ہے۔ اسے یا یوں کہیے کہ اس کے میں کو جسم سے جدا ہونا ہے ۔ اس کا ’میں، الٰہ سے سوال کر رہا ہے۔
اب اس کو کیسے چھوڑ کے جاؤں گا مَیں بھلا
اس کے بغیر کیسے نبھاؤں، مجھے بتا
دل پر گراں ہیں اس کی جدائی کی ساعتیں
بدلے میں اس کے بچے ہیں جنت کی نعمتیں
لیکن ترا ہے اذن اسے چھوڑنا تو
ہے اس عارضی مکان سے منہ موڑ نا تو ہے
آپ نے اور ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ راضی برضائے الہ پر میں کے ہر سوال کی تان ٹوٹتی ہے۔۔۔
ہستی، ہونا، نہ ہونا، کسی نہ کسی نوع کے مبحث کا موضوع بنا رہا ہے
اور بنا رہے گا۔ خالد رؤف قریشی نے ۱۳۰۰ عیسوی سے تعلق رکھنے والے میٹیسٹر اکہارٹ ( Meister Eckhart ) کی الجھی ہوئی فکر کو نظمایا ہے، اور آغاز مندرجہ ذیل دو مصرعوں سے کیا ہے۔ پڑھ لیتے ہیں:
تیرے ہونے سے میرا ہونا ہے
میرے ہونے سے ہے ظہور ترا‘‘
اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے میسٹرا کہارٹ الہ سے دوری اختیار کر کے الٰہ کے احساس سے جدا ہو کر اور رابطہ قطع کر کے، پانے کی جستجو لے کر الٰہ سا ہونے کا قصد کرتے ہیں، اگر چہ کہ الٰہ کی ہستی سے منکر نہیں ہیں۔ ( نظم: ہونا، نہ ہونا)
اس سے پہلے کہ ہم اگلی نظم پڑھیں ۔ غالب کے دو ایک شعر یاد کر لیتے ہیں:
یاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے، غالب!
آخر تو کیا ہے ‘اے نہیں ہے
تصوف کے اہم موضوعات میں ایک موضوع حق اور باطل ہے۔ حق موجود ہے اور حق کے سوا جو کچھ ہے وہ باطل ہے۔ حضور ﷺ کا قول ہے ’’سب سے زیادہ کچی بات جو شاعر لبید کا قول ہے ’’الا کل شی ما علا اللہ باطل‘‘اللہ کے سوا جو کچھ ہے وہ باطل ہے۔۔۔
خالد رؤف قریشی کے چند مصرعے پڑھتے ہیں:
سچ نہیں ہے ہماری دنیا میں
یہ زمانہ تمام باطل ہے
’’ورنہ کچھ بھی نہیں، یہ دھوکا ہے
اس مصرعے کے بعد خالد رؤف صوفیائے کرام کی عام روش سے ہٹ جاتے ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو کے شعرائے معروف کی روش بھی ترک کر دیتے ہیں-
ہم ہی ہم ہیں بساط ہستی پر
ہم ہی ادنیٰ ہیں ہم ہی ہیں اعلیٰ
ہم ہی موجود ہیں ، ہمیں مفقود
ہم ہی سب کچھ ہیں ، ہم ہی کچھ بھی نہیں
خالد رؤف قریشی پہلے یہ اعلان کرتے ہیں کہ سب دھوکا ہے ۔ بعد میں وہ اس مرحلے میں داخل ہوتے ہیں کہ انھیں وہ ہی وہ موجود محسوس ہوتے ہیں، پھر وہ خود کو موجود بھی مانتے ہیں اور معقود بھی۔ اس کے بعد وہ اس مرحلے پر پہنچتے ہیں جس کو عرفان اللہ کا مرحلہ کہا جائے گا اور وہ کہنے لگتے ہیں:
ایسا لگتا ہے ایک ہستی ہے
جو بکھرتی ہے روشنی بن کر
سارے عالم کو جگمگاتی ہے
جب سمنتی ہے تو نگاہوں میں
اک اندھیرا سا مچھوڑ جاتی ہے
ہم بھی اس روشنی کا پرتو ہیں
ہم بھی اس کل کا ایک حصہ ہیں
ایک ہستی ہی سارا عالم ہے
( نظم: سب باطل ہے)
آدمی کی فطری خواہش دوام حاصل کرنے سے متعلق رہتی ہے۔ فن، شعر و ادب سے بھی یہ کام لیا جاتا ہے۔ ife is short : Art is long جیسے اقوال اس کا ثبوت ہیں ۔ خالد رؤف قریشی اس ضمن میں ’الٰہ سے سوال کرتے
خدائے برتر
ترے جہاں میں
ہمارا کب تک
نشاں رہے گا؟
(نظم: خداۓ برتر)
نظم یہ جسم کے بعد آپ ہم موت کے موضوع پر خالد رؤف قریشی کے خیالات پڑھتے ہیں تو ہمیں چونکنا پڑ جاتا ہے۔
روح نکلی چلی جاتی ہے مری ہستی سے
دم بہ دم جسم مرا سرد ہوا جاتا ہے
چند لمحے ہیں دھڑکتے ہوۓ دل کے باقی
سانس دو ، چار لرز تے ہیں ابھی سینے میں
پھر ترے پیار کی دنیا سے بہت دور کہیں
بے کراں وقت کی وسعت میں بکھر جاؤں گا
دل کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے میں نے،
میرے ہونٹوں پہ گلی مہر خموشی کیسی
کیوں تڑپتا ہوں مگر آہ نہیں بھر سکتا
کیوں تمنا کو سر عام نہیں کر سکتا
زندگی تھی ، تو تری یادتھی مرغوب مجھے
میرے دن ، رات ترے غم کے سوا کچھ بھی نہ تھے
تیری دنیا کے گلستاں سے، مری دنیا میں
ایک بے نام دریچہ سا کھلا رہتا تھا
موت بوجھل کیے جاتی ہے مری پلکوں کو
اک سکوں سا مرے اعصاب پر اب طاری ہے
لوگ آئے ہیں مجھے ساتھ لیے جاتے ہیں
تونے آنے میں بہت دیر لگا دی، شاید
رب کا فرمان ہے اب رک نہیں سکتا ، پل بھر
میرا ایمان ہے ، جانا تو پڑے گا مجھ کو
چند باتیں تجھے کہنے کے لیے باقی ہیں
تیری باتیں ابھی سننے کے لیے باقی ہیں
کتنے ہیں کام جو کرنے کے لیے باقی ہیں ۔
موت پر سوچتے سمے ہمارے خالد رؤف قریشی ایک رومانی شاعر کے روپ میں ہمارے سامنے آ کھڑے ہوۓ ہیں۔ ( نظم: باقى الدنيا)
نظم باقی الدنیا کے بعد پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل اپنے آپ کو پڑھواتی ہے لیکن اس غزل کی فضا قطعی غیر رومانی ہے۔ یوں بھی ’موت کے بعد برزخ‘ کا مرحلہ اور قیامت ہے اور دیدار الٰہ غزل کا مصرع اول ہے:
حشر کا میداں سجا تھا اور غزل جس مقطع پر اتمام پاتی ہے وہ بھی پڑھ لیتے ہیں:
جنتوں کی کیا تھی حاجت
تجھ سے ملنا ہی جزا تھا
ہم اور آپ خالد رؤف قریشی کی سوچ کے ساتھ چل رہے ہیں اور ان کی سوچ کو سمجھتے بھی جا رہے ہیں ۔ ہم یہ فراموش نہیں کر سکتے کہ ہم جس کتاب کے مطالعے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اور مستفید ہو رہے ہیں اس کا نام ہے: ‘الہ۔
اس سے قبل ہم نے جسم سے جدا ہونے کے اچھوتے موضوع پر ان کی نظم ‘یہ جسم’ پڑھی۔ ان کی سوچ ’موت‘ یعنی ‘باقی الدنیا کے موضوع پہ اپنا مزاج بدلتی ہوئی محسوس ہوئی، لیکن آگے پڑھا تو پتا چلا وہ فوری طور پر اصل موضوع پر آ گئے ۔ موت کے موضوع پر ان کی سوچ راستے سے قدرے ہٹ کر اپنے تحفظات سامنے لانے کی دھن میں موت برحق ہے کے عام خیال کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہوئی اور ’مرگ کیوں’ کا سوال اٹھا دیا۔ خالد رؤف قریشی صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے پڑھنے والے موت کو برحق مانیں لیکن اس سلسلے میں علاج معالجے سے دست بردار نہ ہوں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ منشائ الٰہ بھی یہی ہے۔ اس بنیاد پر انھوں نے آواز اٹھائی اور اس سلسلے میں ان کے اشعار نے ص ۳۱۱ سے ص ۳۱۸ تک اپنا دامن وسیع کیا۔
بنیادی دلیل جو وہ پیش کر رہے ہیں ۔ وہ درج ذیل ہے:
دنیا میں اتارے جانے سے قبل جب آدمی ( آدم و حوا) جنت میں تھے ۔ اس کو، کوئی روگ لاحق نہیں تھا، اس کو بھوک پیاس بھی نہیں ستاتی تھی اور موت اس کو کبھی نہ آئی تھی ۔۔۔ زمین پر وہ موت سے دوچار ہوا۔
(نظم: مرگ کیوں؟)
جب ہم آگے پڑھتے ہیں تو ہمیں وجود الٰہ اور تصور الٰہ پر مشتمل نظم بعنوان ‘باقی‘ قطعہ’ بے لباس’ اور نظم بعنوان ” کیوں” پڑھنے کے لیے ملتی ہیں۔ ایک بار پھر خالد رؤف قریشی اپنی خالص شاعرانہ فکر Poetic thinking سے ہمیں یعنی اپنے پڑھنے والوں سے الجھ بیٹھتے ہیں۔ آدمی پہ ‘گنہگار’ کا ٹھپہ لگانے والوں کے برخلاف وہ آدمی کا معصومانہ دفاع کرتے ہیں۔ ان کی نظم کا مطلع ہے جو ان کے دفاع کے تیوروں کی عکاسی کر رہا ہے۔
کن گناہوں کی بات کرتے ہو؟
کن سزاؤں کی بات کرتے ہو؟
(نظم: گنگار)
آگے چل کر ہم اور آپ جو شاعری پڑھتے ہیں۔ اس کا موضوع تو قریب قریب وہی ہے لیکن پیرایۂ اظہار ملتجیانہ ہے اور الٰہ سے مہلت مانگی جا رہی ہے۔
(نظم: کام ابھی باقی ہے)
یہ تو ہم اور آپ اچھی طرح جان گئے ہیں کہ خالد رؤف قریشی عرفان نفس، عرفان کائنات اور عرفان الٰہ کے مراحل سے آشنا ہیں لیکن وہ اپنے پڑھنے والوں کو آشنا کرنے کی خواہش میں ان مراحل کو اپنی شاعری کا محور بنا کر مختلف النوع زاویوں سے، اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ آئیے ان کے چند ایک مصرعے مزید پڑھیے:
زندگی برسوں، مہینوں سے عبارت ہی نہیں
موت دراصل کوئی زندہ حقیقت ہی نہیں
حجوٹ دن، رات کا چکر ہے، سویرے، شامیں
ایک دھوکا ہے ستاروں کا نکلنا، بجھنا
ایک ناٹک ہے یہ انساں کی بدلتی ہستی
کوئی ماضی ، نہ کوئی حال، نہ مستقبل ہے
زندگی ایک تسلسل میں جنم لیتی ہے
کوئی زندہ ہے، نہ مردہ نہ، کوئی جسم نہ روح
سارا عالم ہے یہ اک سوچ کے لمحے پہ محیط
ان گنت، گھومتے ذرے ہیں، کہ گردش میں ہیں
بجلیاں گوندتی رہتی ہیں مسلسل ان میں
بکھرے رہتے ہیں، کبھی پاس چلے آتے ہیں
ساتھ رہتے ہیں، کبھی دور بکھر جاتے ہیں
ان کے ملنے سے ہی اشکال جنم لیتی ہیں
کبھی زندہ، کبھی مردہ، کبھی مخفی ، ظاہر
زندگی یوں جو سمٹتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں
جب بکھرتی ہے، تو معدوم نظر آتی ہے
فرد ذروں کا مرکب ہے، جہاں فردوں کا
منتقل ہوتے ہیں ذرات یہاں جسموں میں
جسم ذرات میں تبدیل ہوئےت جاتے ہیں
آج ذرہ جو مرا ہے، وہی کل تیرا ہے
جسم انسان کا، اک کل ہی کا حصہ ہے، مگر
ہم نے اس کل کی حقیقت کو چھپا رکھا ہے
آپ نے اور میں نے خالد رؤف قریشی کی ہمت، جسارت اور جرأت کے اس مظاہرے کو دیکھا۔انھوں نے شعر کی زبان میں سائنسی تحقیقات کے نچوڑ کا ابلاغ کیا ہے اور وہ بھی سیدھی سادی بول چال کی زبان میں ۔ سائنسی اصطلاحات سے بھی دامن بچا لیا ہے۔ انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی داد نہ دینا ناانصافی ہی نہیں بلکہ صریح بیداد ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنے اصل موضوع سے غافل ہو گئے ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو دعوت دے رہے ہیں:
آؤ کھل کر ذرا دیکھو کہ حقیقت کیا ہے
حقیقت کیا ہے، یہ جاننے کے لیے انھوں نے کچھ لوازمات بتائے ہیں۔ یہ لوازمات مندرجہ ذیل ہیں:
– ا۔دل کی آواز سننا، ۲ ۔سوچ کو باغی کرنا، ۳ عقل و منطق کی رمی باتوں سے قطع نظر کرنا، ۴ ۔ روح کو آزاد کرنا، ۵ ۔ قلب کو روشن کرنا، ۲ ۔ وقت کی قید و بند سے آزاد ہونا، ۷ ۔جسم کو روح کا تابع بنانا۔
ان شرائط اور لوازمات کی تکمیل کے بعد ہی، بقول خالد رؤف قریشی، حقیقت کا ادراک حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقت ماسوا الٰہ کی ہستی اور کیا ہوسکتی ہے۔ (نظم: حقیقت کیا ہے)
جب تک آدمی بصارت کی حدود میں رہتا ہے ۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے، اس کوحتمی خیال کرتا ہے لیکن جیسے ہی وہ بصیرت سے ہمکنار ہوتا ہے تو سب کچھ یکسر بدل جاتا ہے ۔ الیگزینڈریا کے فیلو Philo of Alexandria کو جس کا تعلق 30 – 45 ق۔م۔ کے عہد سے ہے۔ اس نوع کے تجربے سے واسطہ پڑا۔
اس تجربے کو اس نے اپنے طور پر بیان کر دیا اور خالد رؤف نے اپنے اشعار کی وساطت سے اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا دیا۔ فیلو نے اپنی بصیرت کی کیفیت کو بھی بصارت کے کھاتے میں ڈال دیا لیکن صورت حال کو بیان کرنے کے لیے استعارے کی زبان میں یہ اعلان کیا:
باہر کھڑا ہوں اپنے ہی جسم و دماغ کے
حیراں، دیکھتا ہوں میں عقل و شعور کو
اس سے قبل وہ اپنے آپ کو سب سے مختلف سمجھتا تھا۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ ہر شخص اپنی ذات میں منفرد ہے اور ہر چیز اس دنیا کی ایک کائنات ہے۔
اصل معاملہ فیلو پر منکشف ہوا کہ اس کی بصارت ضعیف تھی (بصیرت حاصل نہ تھی)۔ بعد میں اس نے رب جلیل کی شان دیکھی اور اسے ذرے میں تمام کائنات نظر آنے لگی۔ نہ تو وقت گزرتا ہے اور نہ ہی گردش ہے۔ فاصلے مٹ گئے ہیں ۔ آغاز ہے نہ انجام، زمین آسان کے تفرقے بھی موجود نہیں۔ بس اک وجود ہے جو ہر سمت ہے۔’الٰہ
( نظم: بصارت)
خالد رؤف قریشی کی سوچ کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے مختلف النوع روپ سامنے آئے اور آتے رہیں گے۔ حرف آخر کبھی حرف آخر نہیں بن سکے گا کیونکہ ہر حرف آخر۔۔۔ حرف اول بن کر، آ کھڑا ہو گا۔ الٰہ کے ہر قاری کو یہ سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ اس کتاب کا اتمام ممکن ہے۔
زبان ، بیان اور ڈکشن کے بارے میں رہی اور غیر رسمی باتیں
خالد رؤف قریشی کو شاعر ہفت زبان لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر وہ سات زبانیں نہ بھی جانتا ہو تو پانچ، چھ زبانوں میں اہل زبان لوگوں کا ہمسر ضرور ہے۔ جب ہم ’الٰہ کی شعری زبان پر توجہ دیتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ الٰہ کی زبان پر نہ تو فارسی کا غلبہ ہے، نہ ہی پشتو یا گورمکھی کی چھاپ، جب کہ بلحاظِ علاقہ ایسا ہونا عین ممکن ۔ خالد رؤف کی عربی دانی اور عربوں کے لہجے میں بول چال کی اور عربوں کے اعلٰی طبقے کی زبان بولنے کی صلاحیت کے علاوہ کتاب کے موضوع کی مناسبت سے متوقع تھا کہ الٰہ کی زبان عربی، عبا، قبا میں ملبوس ہو گی ۔۔۔ کتاب کی زبان کو موضوع کے اعتبار سے عالمانہ ہونا ہی تھا لیکن وہ عالمانہ تو عالمانہ مولویانہ بھی نہیں ہوئی۔( شکر الٰہ کا )
الٰہ کی زبان پر انگریزی یا فرانسیسی زبانوں کا اثر نہیں ملتا جب کہ مصنف (شاعر) کینیڈا میں انگریزوں اور فرانسیسی لوگوں کے ساتھ مل جل کر بلکہ گھل میل کر اہم تکنیکی فرائض کی انجام دہی میں برسوں سے مصروف ہے۔
مغربی ادب میں یہ سوال زیر بحث آتا رہا ہے آیا شاعری کی زبان عام زبان سے جدا دوسرے لفظوں میں شاعرانہ ہونا چاہیے۔ آج کے دور میں اس مسئلے کو ایک بار پھر سنجیدگی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ وہ اس طرح کہ ادب کے ناقدین نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ انگریزی شاعری، یو۔ کے۔ اور امریکا میں اور دیگر علاقوں میں جہاں بھی وہ تخلیق کی جا رہی ہے، واضح طور پر زوال پذیر ہے اور اس زوال کے اسباب میں ایک سبب یہ ہے کہ شاعری کی زبان کو عام زبان سے مختلف رکھا جا تا ہے۔ شاعری عام زبان یا عام لوگوں کی زبان سے قدرے مختلف زبان میں تخلیق ہوتی ہے یا تخلیق ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شاعر کچھ کہتا ہی نہیں، محسوس بھی کراتا ہے ۔ محسوس کرانے کے لیے شاعر کو ان لفظیات سے کام لینا پڑتا ہے جو بیان کرنے کے ساتھ، ساتھ محسوس بھی کرائیں۔ شاعر کی ایسی لفظیات پر مشتمل زبان کو ہم اور آپ استعارے کی زبان ( Figurative Language ) کہتے ہیں۔ یہی وہ زبان ہے جسے شاعری کی زبان کہا جائے گا۔
جب یہ کہا جائے کہ محبت میں میرا جو حال ہوا ہے وہ ایک دنیا کو معلوم ہو گیا ہے، ماسوا محبوب کے، تو ایک صورت حال کا اظہار ہو رہا ہے، لیکن اس فقرے کے پڑھنے والے کو یہ محسوس نہیں ہو پائے گا کہ عاشق صاحب عشق میں کس حالت زار تک پہنچ چکے ہیں اور ہاں یہ بھی محسوس نہ ہو سکے گا کہ محبوب کتنا حسین ہے اور ایک دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ جب میر تقی میر کے مندرجہ ذیل شعر سے مدد لی جائے تو پڑھنے والا ایک ایسی حسیاتی فضا اور ماحول میں اپنے آپ کو پاتا ہے کہ عاشق صاحب کی داخلی اور خارجی حقیقی جیتی جاگتی صورت حال اس پر ج منکشف ہو جاتی ہے
پتا پتا ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
خالد رؤف قریشی کی زبان ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ زبان عوامی زبان ہے تو ایسا کہنا بھی صورت حالات پر پورا نہیں اترتا۔ لاچار ہو کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ خالد رؤف کی شاعری کی زبان ان کی اپنی ہے۔ یہ زبان کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملے گی۔
الٰہ کا مقدمہ جو خود مصنف خالد رؤف قریشی نے تحریر کیا ہے۔ نثر میں ہے لیکن الٰہ صنف شعر میں ہے۔ الٰہ اساسی طور پر ایک حمد ہے۔ ایک طویل حمد ہے۔ اس کی ضخامت ص ۸۳ سے ص ۳۴۸ لینی ۲۶۵ کتابی صفحات تک پھیلی ہوئی ہے۔ میں قیاس پر نہیں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ الٰہ دنیا میں کسی بھی زبان میں تخلیق کی ہوئی طویل ترین حمد باری تعالٰی ہے۔ اس میں چند ایک حمد یہ قطعات اور غزلیات ہیں۔ کلی طور پور یہ نظموں کا مجموعہ ہے۔ ان نظموں میں چار پانچ ایسی نظمیں ملتی ہیں جو دیگر مفکرین کے تراجم ہیں ( حوالے کے ساتھ ) ایک دونظمیں حادثاتی یا اتفاقیہ طور پر در آئی ہیں جو موضوع سے غیرمتعلق ہیں۔
بادی النظر میں ’الٰہ کی نظموں میں انسان اور اس کی دنیا اور دنیوی زندگی کے بارے میں تدبر، تفکر، تخیر اور بحث و تمحیث کی فراوانی ملتی ہے لیکن ہر نظم کا لب لباب اور مرکزی محرک پوری ہم رشتگی اور Relevance کے ساتھ الٰہ سے وابستہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آ تا کہ خالد رؤف قریشی کے ذہن میں یہ جادوئی اور قریب، قریب ناممکن العمل خواہش کیسے موجزن ہوئی کہ ایک موضوع سے مستحکم ربط استوار رکھتے ہوئے آزادی فکر کی فضا کو برقرار رکھا جائے۔
خالد رؤف قریشی کے شعری ڈکشن کے بارے میں بات کرنے سے بہت پہلے میں نے ان کی زبان پر بات کی تھی ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا ذخيرة الفاظ بے حد وسیع ہے کیونکہ انھیں بہ یک وقت چار پانچ زبانوں پر عبور حاصل ہے، جیسے فارسی، پشتو، گورمکھی، عربی اور اردو لیکن ان کے شعری ڈکشن پر مذکورہ زبانوں میں سے کسی بھی زبان کی چھاپ نہیں ملتی ۔ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کا شعری ڈکشن زبان کے بجائے عوامی بولی پرمشتمل ہے۔ ان کے شعری ڈکشن میں پختگی اور روانی کا فقدان ہے۔ اس میں ایک نوع کا کچاپن ہے ۔ یہ اس حد تک کچا ( Raw ) ہے کہ کسی ، کسی مقام پر اجنبی اور نامانوس لگنے لگتا ہے۔ قاری کا ذہن ان مواقع پر ان کے وطن کی طرف جائے گا بالکل اس طرح جس طرح حالی کے ڈکشن اور زبان کو تنقید کا نشانہ بنانے والے نقادوں کا ذہن ان کے وطن پانی پت کی طرف گیا تھا۔ خالد رؤف کا تعلق پختون خوا سے ہے۔ خالد رؤف رواں اردو بولتے ہیں ۔ ان کو بولتے ہوئے سنیں گے تو آپ کا ذہن علاقہ پختون خوا کی طرف نہیں جا سکے گا۔
خالد رؤف قریشی کی زبان میں غرابت، اجنبیت اور کچا پن ان کا اپنا اختیارکردہ ہے۔ یہی ان کی شناخت ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ان کا شعری لہجہ تصنع سے پاک اور بھلا لگا۔
اکیسویں صدی کے شعروادب نے مغربی ادب کے علاوہ روسی ادب نے وکٹور شہکیسگی ( Victor Shkeovsky ) کے اس نظریے کو اعتبار کے منصب پر بٹھا دیا ہے جس کو انگریزی میں ڈی فیمیلیارائی زیشین Defamillarization کا نام دیا گیا ہے۔ قاری ’الٰہ کے مطالعہ کرنے کے دوران اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ الٰہ میں شامل ہر نظم کا مرکزی خیال حمد باری تعالی ہے۔ اس کے باوجود قاری ’الٰہ میں شامل ہر نظم کو پڑھے گا، پڑھنا بھی چاہیے کیونکہ ہر نظم کے تیور یہ بتا رہے ہیں کہ اس میں صرف اور صرف وہ نہیں ہے جس سے وہ خالد رؤف قریشی کی کتاب کا نام ہی ایسا ہے کہ قاری کے اندر کوئی معلن آواز لگانے لگتا ہے ۔ با ادب، باملاحظہ، ہشیار یقین مانیے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ الٰہ کی نظمیں خالد رؤف قریشی رواں اردو میں تحریر کرتے تو قاری ان کی کتاب کو آنکھوں سے لگاتا، ادب سے چوم