گل جی ۔ فخرِ پشاور ۔ فخرِ پاکستان

کلفٹن کراچی میں 19 دسمبر 2007ء کو بدھ کا دن تھا اور مشہور عالم اسماعیل گل جی کے پشر امین گل جی کو جو کہ خود ایک بڑا آرٹسٹ ہے۔ اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ اپنے والد اور والدہ سے پچھلے تین دنوں سے نیہں مل سکا تھا۔ اور ان سے فون پر بات چیت بھی نیہں ہوئی تھی۔ حالانکہ ان کے گھر پاس پاس تھے وہ کسی خانگی ناراضگی کی سجہ سے ان کی خدمت میں حاضری دینے سے گریز کر رہا تھا۔ متعدد بار فون کرنے پر بھی ان سے رابطہ نہ ہوسکا تو پریشان ہوکر اپنے خادم کو بھجوایا کہ جاکر ان کی خیریت معلوم کرے۔ اور یہ دیکھے کہ وہ گھر پر موجود ہیں کہ نیہں۔ خادم نے آکر اطلاع دی کہ ان کے گھر سے کوئی جواب نیہں ملا اور دروازہ کھٹکھٹایا اور زندگی کے کوئی آثار نہ ملنے پر کھڑکی توڑ کر گھر میں داخل ہوا۔ یہاں پر اسے ایک نہایت پر روح فرسا منظر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کےک والد اسماعیل گل جی کا  بے جان جسم ڈرائنگ روم کے باہر پڑا ہوا تھا۔ والدہ زرینہ گل جی کی لاش باورچی خانہ میں پائی گئی اور ان کے خادم انسہ ساتھ والے کمرے میں مردہ حالت میں ملے۔ ان تمام لوگوں کو مرے ہوئے تین دن ہوچکے تھے۔ ڈرایور ان کی چار گاڑیوں میں سے ایک لے کر فرار ہو چکا تھا۔ اور چوکیدار اور بارچی لاپتہ تھے۔ اَمین گل جی نے فوراً پولیس کو مطلع کیا اور کیس رجسٹر کروایا۔ اس کو اس غم کی حالت میں اس بات کا بڑی شدت سے احساس تھا کہ گل جی کی کسی سے دشمنی نیہں تھی اور ان کے گھر سے کوئی قیمتی چیز چوری بھی نیہں ہوئی تھی۔ تو پھر اس واردات کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ 

پاکستان کے نہایت ہی قابلِ فخر اور دنیائے فن کے مشہور آرٹسٹ اور مصور جناب اسماعیل گل جی کا یہ انجام کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نیہں اور اس واقعے پر جتنا رنج و غم اور احتجاج کیا جائے کم ہے۔ 

اسماعیل گل جی 25 اکتوبر 1926ء کو پاکستان کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا تعلق اٹک سے تھا ار ان کی والدو کا ضلع ھزارہ سے۔ گل جی کے والد ایک انجنیئر تھے اور حکومتِ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان کے مقاماتِ رہائش مسلسل بدلتے رہتے تھے۔ گل جی نے اپنا بچپن انہی مقامات پر منتقل ہوتے ہوئے گزارا۔ 

گل جی نے اپنی تعلیم کا آغاز پشاور صدر کے Presentation Convent سکول سے کیا۔ اور بعد ازاں مری کے قریب واقع پہاڑی شہر گھوڑا گلی کے Lawrence College سے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کی۔ 

 

ہمایوں گوہر کے ساتھ ایک انٹرویو میں گل جی کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی ایک مصور بننا چاہتے تھے اور ان کے والدین کا ارادہ تھا کہ انیہں آرٹس کی اعلیٰ تعلیم و تربیات کے لئے پیرس بھجوائیں۔ اس اثنا میں مالی حالات کے تبدیل ہونے کی وجہ سے ان کو اپنا یہ ارادہ ترک کرنا پڑا اور یہ خواب شرمندۃ تعبیر نہ ہوسکا۔ اپنے والد کے مشورے پر گل جی نے ریاصی اور انجنیئرنگ کے مضامین اختیار کئے۔ ان کی کارکردگی نمایاں طور پر قابلِ تعریف تھے جس کے نتیجہ میں ان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے سرکاری سکالرشپ ملی۔ یہاں سے انہوں نے انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاسل کی۔ ریاضی کے مضمون میں ان کی مہارت کا یہ حال تھا کہ وہ بیس سال کی عمر میں خود سے بہت بڑے طالبِ علموں کو باقائدہ پڑھاتے تھے۔ اس دوران انہوں نے امریکہ کی Colummbia University میں سکالرشپ کے لئے ایک درخواست داخل کی جہ کہ منظور کرلی گئی۔ Columbia University سے انہوں نے انجنیئرنگ میں ماسٹرز کی ڈکری حاصل کی اور کچھ عرصہ تک وہاں Mathematics پڑھاتے رہے۔ 

ایک سوال کے جواب مین انہوں نے کہا کہ یا تو آپ Mathematics پڑھا سکتے ہیں یا پھر مصوری کرسکتے ہیں۔ دونوں کام ایک ساتھ نیہں کئے جاسکتے۔ البتہ Mathematics نے ان کہ مصوری کے خطوط اور زاویوں کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں بہت مدد دی۔ 

گل جی کا کہنا ہے کہ وہ بڑآ بول نیہں بولتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جس کام کا بھی بیڑا اٹھایا ہے اس میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ 

چاہے وہ ریاضی ہو۔ انجنیئرنگ ہو یا مصوری۔ 

گل جی Harvard Unversity سے Phd. کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن انہی دنوں حکومتِ پاکستان نے ان کو Worsak Dam کے design کے سلسلے میں سویڈن کی ایک کمپنی کے ساتھ کام کرنے پر معمور کردیا، جس کی وجہ سے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ 

بعد ازاں انہوں نے کینیڈا کی کمپنی HG Acres کے ساتھ Worsak Dam کے design پر ڈیڑھ سال تک کام کیا۔ 

گل جی نے اپنی تعلیم کے دوران تصویر کشی کا مشغلہ جاری رکھا جس کے نتیجہ میں ان کی تصویروں کی پہلی نمائش Stockholm میں پچاسویں دہائی کے اوائل میں منعقد ہوئی۔ ان کی تصویروں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس نمائش کہ دروازے کھلنے سے پہلے ہی ان کی تمام Paintings بک چکی تھیں۔ 

گل جی نے ایک انجنیئر کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا اور پاکستان واپسی پر بھی Central Engineering Authority کے ساتھ منسلک رہے۔ Worsak کے design کے علاوہ انہوں نے مشرقی پاکستان (ان بنگلادیش) میں بھی متعدد dams پر کام کیا، ان کے اپنے الفاظ میں انہوں نے Engineering Design کے تقریبً ہر Aspect پر مہارت سے کام کیا ہے۔ اور Engineering Design reports کی ایک مکمل series لکھی ہے۔ جس سے کہ ان کو بعد آنے والے انجنیئرز مستفید ہوسکتے ہیں۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ گل جی نے مصوری یا خطاطی کے فن میں کائی باقائدہ تعلیم حاصل نیہں کی۔ وہ ایک self-taught مصور تھے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ اپنی مصوری کے ابتدائی زمانے میں انہوں نے live portraits اور sketches بنانے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ اپنی انجنیئرنگ کی دس سالہ سروس کے دوران حکومت کی طرف سے ان کو کئی مرتبہ خیر سگالی کے طور پر مختلف ملکوں میں معتبر شخصیات کی تصاویر بنانے کیلئے متعین کیا گیا۔ 

جس کام کو انہوں نے نہایت خوش اصلوبی سے نبھایا۔ 

اس سلسلے میں گل جی اپنے افغانستان کے دورے کا ذکر خاص طور سے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ظاہر شاہ چونکہ بذاتِ خود ایک آرٹسٹ تھا اس کی اور اس کی فیملی کے portraits بنانے میں کافی آسانی ہوئی، یہ کام انہوں نے 1957ء میں مکمل کیا۔ گل جی نے شاہ خالد۔ شاہ فیصل ۔ شاہ فہد، ایوب خان۔ ذوالفقار علی بھٹو ۔ ولی خان ۔ امریکہ کہ صدر بش سینیئر ۔ اور بہت ساری دوسری مشہور ہستیوں کے live portraits بنائے جو کہ فنی اعتبار سے  بہت مقبول ہوئے۔ 

جن دنوں وہ ڈھاکہ میں پرنس کریم آغا خان کا portrait بنا رہے تھے۔ ان کی ملاقات زارو سے ہوئی جن سے بعد میں ان کی شادی ہوگئی۔ 

ہمایوں گوہر کے ساتھ انٹرویو میں اپنے کام کے بارے میں گل جی کہتے ہیں کہ وہ ہر روز صبح گیارہ بجے سے لےکر شام آٹھ بجے تک تصویریں بناتے ہیں اور اس دوران ان کا برش ایک نرم پر کی طرح کینوس پر چلتا رہتا ہے۔ 

 

 Portraits سے توجہ ہٹا کر بعد کے دنوں میں انہوں نے خطاطی کو اپنایا اور اس فن کو Painting کی صورت میں دنیا کے سامنے ایسے پیش کیا کہ سب تعریف کئے بغیر رہ نہ سکے۔ گل جی کے اپنے بیان کے مطابق ان کی ابتدائی caligraphy مصوری زیادہ تر کلاسیکی نوعیت کی تھی۔ اس لئے کہ فن میں آپ کو بیادی اصولوں کو پہلے اپنانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی آپکے برش میں اثر پیدا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی پرانے استاد کے سٹائل میں خطاطی کرسکتے ہیں۔ 

 

ان کو گلہ تھا کہ اسلامی معاشرے میں ہم نے سوچ اور فکر میں تو ترقی کی ہے لیکن caligraphy میں نیہں کی۔ جو بھی مواد ہمارے فنکاروں نے آج تک پیش کیا ہو وہ صرف classical caligrapy ہے اور کسی نئی سمت میں کوئی بھی ترقی نیہں ہوئی۔ گل جی کا خیال تھا کہ پاکستان میں آرٹ کا ٹیلنٹ، بدرجئہ رتم موجود ہے۔ لیکن تمام آرٹسٹ اپنے آرٹ کی جگہ اپنی شخصیت پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں جس کی سجہ سے حقیقی آرٹسٹ دب کے رہ جاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ خود ایک نہایت ہی سیدھی سادھی طبیعت کے مالک تھے۔ 

گل جی کی بنائی ہوئی تصاویر زندگی سے بھرپور رنگوں سے مزین ہوتی ہیں جو کہ کائنات کے حساس پہلوؤں کو نہایت خوبی اور جرات سے اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا برس کینوس پر آزادی اور بھرپور قوت سے اپنا اثر چھوڑتا ہو۔ 

 calligraphic paintings کے سلسلے میں ان کی وہ تصویر جن میں انہوں نے خدا وند کریم کے نام اور صفات بیان کئے ہیں قابلِ دید ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ان کا چرچہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد پراجکٹوں میں اسلام آباد کی فیصل مسجد کی تزئین بھی شامل ہے جہاں انہوں نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ 

جن دنوں گل جی columbia میں مقیم تھے ان دنوں امریکہ میں abstract art کا بڑآ چرچہ تھا۔ گل جی کا خیال تھا کہ یہ تصویر کشی کوئی بھی آسانی سے کرسکتا ہے۔ وہ اس تجریدی آرٹ سے کچھ زیادہ متاثر نظر نیہں آتے تھے۔ البتہ ان کو آرٹ کی اس قسم میں برش کا آزاد استعمال بہت پسند تھا۔ 

1995ء میں آرٹ کے مشہور نقاد Eric Gibson نے واشنگٹن میں گل جی کی ایک تصویر نمائش دیکھی تو اس نے کہا۔ 'گل جی ہے تم نے کیا کردیا" تم نے جو بنایا ہے وہ ہمارے فن کار مدتون سے بناتے چلے آرہے ہیں، لیکن تمہارے ہاتھ میں کچھ ایسا اثر ہے جہ ان میں سے کسی میں نیہں۔" Gibson کا کہنا تھا کہ حالانکہ گل جی تجریدی آرٹ اور فکر میں پچھلے بیس سالوں مین آئے ہیں۔ ان کے تصویر بہت زیادہ پرکشش ہیں اور توجہ کے لائق ہیں، ان تصویروں میں آرٹسٹ نے دو مختلف تہذیبوں کے اصلوب کو یکجا کیا ہے، اپنے پرش کی حلکت سے انہوں نے اسلام کی خطاطی  کو مغرب کے تحریری آرٹ سے یکجان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ:

“These painting combine the two traditions with grace and elegance and at this same time manage to transcend them. The paintings stand as more than the own of their powers”

گل جی کا کہنا تھا کہ قرآن کے الفاظ میں جادو ہے۔ اور ان کو لکھنے میں بہت لطف آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام روحانی طور پر باقی تمام استاروں سے زیادہ مختلف نیہں۔ لیکن قرآن کے الفاط کو لکھنے کے لئے اپنے آپ کو ان کے حسن اور ان کی معنوی کیفیت میں مدغم کرنا پڑتا ہے۔ گل جی کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان میں ایک آرٹستٹ کو وہ عزت اور مقام حاصل ہو جس کا وہ مستحق ہے۔ ان کو افسوس تھا کہ یہ ابھی تک نیہن ہوسکا۔ 

کہتے تھے کہ ایک آرٹسٹ کو اپنی روزی کمانے میں اب بھی اتنی مشکلات کا سامنا ہے کہ وہ اپنی تمام تر قوت اور توجہ اپنے فن پر مرکوز نیہں کرسکتا اور اس وجہ سے اس کا کام متاثر ہوتا ہے۔ 

یہ ایک نہایت افسوس اور رنج کا مقام ہے کہ عالمی شہرت کا حامل اتنا عظیم پاکستانی فنکار اتنی بے دردی سے قتل کر دیا جائے اور اس پر کائی صدائے احتجاج نہ اٹھے۔ ایک اتنا درخشاں چراغ بے وقت گل کردیا جائے اور ہماری قوم اس کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ اور صرف تماشہ دیکھتی رہ جائے۔ جانے پشاور کی گلیوں میں پھر کب ایک گل جی پیدا ہوگا جو کہ اپنی ماں کی گود سے ہی فنکار بننے کا خواب لے کر اٹھے گا اور دنیائے فن پر چھا جائے گا۔ جانے اس میں کتنی صدیاں لگ جائیں گی۔ 

خداوند کریم سے دعا ہے کہ گل جی اور اس کی شریکِ حیات کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ اور پاکستانی قوم کو اس جرم کی پاداش میں مستقبل کے فنکاروں سے محروم نہ کرے۔ آمین۔ 

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے۔ 

اس مضمون کا کچھ مواد ہمایوں گوہر کے اس انٹرویو سے حاصل کیا گیا ہے جو انہوں نے پچھلے سال کراچی میں گل جی کے ساتھ بالمشاغہ منعقد کیا۔ 

Share This

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *