الصمان کے ریگزار میں جیپ تیزی سے دوڑاتے ہوئے میرے سامنے ریت کی ایک بہت اونچی پہاڑی تھی جس پر میں تیزی سے چڑھتا چلا جا رہا تھا ۔
ان دنوں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے خصوصی طور پر میری ٹیم کو ایک نہایت دشوار صحرائی سڑک تعمیر کر نے کا کام سونپا تھا۔ میں چونکہ اس پراجیکٹ کا جنزل میجر بھی تھا اور چیف انجینئر بھی ۔ اس لیے ان دنوں صحرائے الصمان ہی میرا مسکن تھا۔ صحرا میں اکیلے سفر کر نا ہمارا معمول تھا۔ جب کوئی بڑی چڑھائی سامنے آتی تو ہم گاڑی کی رفتارحتی الامکان بڑھا کر ڈھلان پر چڑھتے جاتے حتیٰ کہ پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ جاتے ۔ پھر اسی رفتار سے گاڑی کو دوسری طرف کی ڈھلان پر چھوڑ دیتے ۔ چونکہ اس ڈھلان کا اوپری حصہ عمودی ہوتا ہے، گاڑی کچھ دُور ہوا میں سیدھی گرتی اور پھر ریت پر پہیے جماتے ہی آگے بھاگتی چلی جاتی ۔ چونکہ یہ میرا روزمرہ کا معمول تھا، اس لیے مجھے اس عمل میں کوئی خطرہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ البتہ
پر پاؤں کے دباؤ میں ملکی سی لغزش گاڑی کوریت میں دھنسا سکتی تھی ۔(accelerator)
شومیِ قسمت کہ آج وہی ہوا۔ میں نے لمحہ بھر کے لیے پاؤں کیا اٹھایا، گاڑی کے چاروں پہیے ریت میں ڈوبتے چلے گئے ۔ ایسی حالت میں کوئی کوشش کارگر نہیں ہوتی کہ اگر گاڑی کا توازن زرا بھی بگڑ جائے تو نیچے کھائی میں گرسکتی ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر یوں پھنس جانے کے بعد فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ مجھے غصہ اس بات پر آیا کہ گاڑی تب پھنسی جب میں بالکل چوٹی پر پہنچ چکا تھا اور اب بس اپنے آپ کو ڈھلان کے حوالے کرنا باقی تھا۔ کافی دیر تک تو میں جیسے سکتہ کے عالم میں بیٹھا رہا۔ اب کیا کروں؟ سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ پھراپنے آس پاس کا جائزہ لیا۔
دُور ، دٗور تاحدِ نگاہ ریت ہی ریت تھی ۔ سر پر چلچلاتی دھوپ ، درجہ حرارت اتنا کہ جِلد جلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی ۔ آنکھیں دھوپ کی چمک سے خیرہ۔ میرے پاس پانی کی صرف ایک مچوٹی بوتل تھی ، جو آ دھی خالی ہو چکی تھی ۔
مشکل یہ تھی کہ گاڑی کی بتیوں سے اگر کوئی اشارہ کرتا بھی تو دھوپ کی وجہ سے کسی کو نظر نہ آتا۔ اگر رات کا وقت ہوتا تو بات مختلف تھی ۔ علاقہ کے بدو میری گاڑی بھی پہچانتے تھے اور میرے اشارے بھی جانتے تھے۔ وہ فوراً اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر میری مدد کو پہنچ سکتے تھے ۔ ساتھ کچھ کھجوریں اور اونٹنی کا دودھ بھی لاسکتے ۔ اب حالت یہ تھی کہ اگر گاڑی میں بیٹھ کر کسی کے آنے کا انتظار کروں تو جلد ہی پانی ختم ہو جائے گا۔ گرمی دم بدم بڑھتی چلی جا رہی تھی اور ابھی دن کے نو ہی بجے تھے ۔ گاڑی کے اندر کا درجہ حرارت ویسے بھی باہر کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اگر گاڑی سے اتر کر پیدل چلوں تو دُور تک کوئی آبادی نہیں تھی شمال کی جانب بدووں کی ایک چھوٹی سی بستی ضرور تھی لیکن میرے اندازہ کے مطابق وہ پچاس کلومیٹرز سے زیادہ دُوری پر ہوگی اور درمیان میں کم سے کم چار پہاڑی سلسلے پڑتے تھے ۔ پہاڑی سے میری مراد ریت کے ان ٹیلوں سے ہے جو اونچائی میں تو پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں لیکن موسم اور ہوا کے ساتھ ساتھ اپنی ہیت اور جگہ بدلتے رہتے ہیں ۔
علاوہ ازیں ، ایک مرتبہ پہاڑی سے نیچے اتر گئے تو ریگستان میں سمت کا تعین کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف ایک ہی طرح کا منظر دکھائی دیتا ہے ۔ رات کی بات دوسری ہے کہ ستاروں کی مدد سے یہ انداز و بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ شمال ، جنوب کس طرف ہیں ۔ ہر دو صورتوں میں کہ گاڑی میں بیٹھ کر قسمت پر بھروسا کیا جائے یا پیدل چلنے کی ٹھانی جائے ۔ خطرہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ حواس باختہ ہونے سے بھی کام چلنے والانہیں تھا۔ اس گومگوں کے عالم میں کافی وقت گزر گیا ۔ جب رہا سہا پانی بھی ختم ہونے کو آیا اور گاڑی کے اندر تپش کے مارے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا تو میں باہر نکلا ۔ ہوا بالکل بند تھی اور ریت کی سطح پر سورج کی شعاعوں کی جھلمل کے علاوہ کوئی حرکت یا جنبش نہ تھی ۔ بس ایک سکوت سا چھایا ہوا تھا۔ اچھا ہی تھا کہ بصورتِ دیگر ریت اڑتی تو راستہ دیکھنا اور چلنا مشکل ہو جاتا۔ چار و ناچار میں نے پیدل سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے کھڑے میں نے سمت کا تعین کیا اور منزل کی طرف قدم بڑھا دیے۔
ریت کے چھوٹے ، بڑے ٹیلوں پر چڑھتے ، اترتے سورج سر پر آ گیا۔ گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی اور میرا تھکان اور پیاس کے مارے برا حال تھا۔ بمشکل قدم اٹھ رہے تھے۔ ایک ایک قدم من من بھر کا تھا۔ بڑے مراحل تو ابھی باقی تھے۔ اونچی اونچی ریت کی پہاڑیاں ابھی سر کرنا تھیں ۔ اگر ان کو عبور کر نے کے بجائے ان کے ساتھ ساتھ چلتا تو اول تو راستہ طویل ہو جاتا اور دوسرا مَیں نہ جانے کہاں کا کہاں نکل جاتا۔ اس لیے پہاڑیوں کو عموداً عبور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔ دو پہاڑیوں پر چڑھ کر چوٹی سے اپنے آپ کو ڈھلان سے دوسری طرف لڑھکا دینا تو مجھے یاد ہے ۔ اس کے بعد آنکھوں کے سامنے ایک دُھندلکا سا چھا گیا اور ذہن نے سوچنا بند کر دیا۔ آگے ، یا آس پاس کا کوئی احساس باقی نہ رہا۔ بس یہ ہی یاد تھا کہ ہر قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھانا ہے ۔ زبان سوکھ کر چمڑا ہو چکی تھی اور سانس دھکنی کی طرح ایسے چل رہی تھی کہ سینہ اور ناک دونوں جلتے تھے اور تسلسل کے ساتھ گلہ سے آواز خارج ہوتی تھی ۔
اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا گزری۔ میں کیسے چلتا رہا۔ ٹیلے اور پہاڑ کیسے عبور کیے ۔ جب مجھے کچھ اپنے گرد و پیش کا احساس ہوا تو سامنے ، دُور دُھندلا ، دُھندلا مکانوں کا ایک جُھنڈ یوں نظر آرہا تھا کہ ریت سے اٹھتی ہوئی گرم ہوا کی لہروں میں جیسے جھوم رہا ہو ۔ میں نے اپنا جائزہ لیا تو اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر براجمان پایا۔ شاید میں اپنے سفر کے آخری مراحل تک آپہنچا تھا ۔ میں نے اپنی رہی سہی پوری قوت صرف کرتے ہوئے اپنے آپ کو ڈھلان سے نیچے لڑھکا دیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کیسے اور کب گھسٹتا ہوا آ بادی تک پہنچا ۔ جب دوبارہ ہوش آیا تو میں ایک گڑھے کے کنارے پر پڑا ہوا تھا اور میرا چہرہ کیچڑ میں لت پت تھا۔ میں نے بے قراری میں اس گڑھے میں سے کیچڑ نما پانی پینے کی کوشش کی اور پھر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا ۔ شاید کچھ لوگ بھی وہاں پر جمع ہو گئے تھے اور مجھے پہچان کر گھر کے اندر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میرا چہرہ اور جسم دھوپ کی تمازت سے جُھلس چکے تھے اور ہونٹوں پر پپڑیوں کے درمیان میں زخموں سے خون رِس رہا تھا۔ جس کا ذائقہ میں اپنی زبان پر محسوس کر سکتا تھا۔ بعد میں گاؤں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ میں دوسری صبح تک غافل رہا تھا۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اس گاؤں کا نام حفرالعطش تھا ۔ لینی پیاس کا گڑھا یا پیاس کا کنواں اس نام کا معنی میں اب بڑی اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔
حفر العطش کا چھوٹا سا گاؤں صحرا الصمان کے وسط میں واقع ہے ۔ صحرائے الصمان دنیا کے خشک ترین اور نہایت خطرناک صحراؤں میں شمار کیا جا تا ہے۔ یہ سعودی عرب کے مشرقی گوشہ میں واقع ہے اور اس کی مغربی سرحد الریاض سے لگ بھگ ڈیڑھ سوکلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ شمال میں صحرا العفودا اور صحراالدھناء کو جنوب میں صحرا اربعہ الخالی سے ملاتا ہے ۔ اس کی مشرقی سرحدیں کویت ، قطر اور العمارات سے جا ملتی ہیں ۔ الصمان میں رہایش کے دوران میں حالانکہ میں پہلے
خیمہ میں رہا ہوں اور بعدازاں (Mobile Home) بنا کر اس میں رہایش اختیار کی۔ ۔ اشعار ذہن پر یوں اترتے تھے کہ جیسے ساون کی بارش صبح ، دو پہر، شام رات ۔ نہ موقع ، نہ محل ۔ بس نظموں اور غزلوں کی ایک یورش تھی کہ جس پر میرا کوئی اختیار نہ تھا۔ عجیب ، عجیب خیالات ، نت نئے تصورات ۔
ایک دن میں نے اپنے ایک بدو دوست ابو عامر سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ تو اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور بولا عجیب، بامهندس. أنت لا تعرف؟ هذه بلاد عنتر یعنی ، عجیب بات ہے انجینئر صاحب، آپ کو معلوم نہیں کہ ی عنتر کا علاقہ ہے ۔ کیونکہ مجھے عنتر کے بارہ میں زیادہ علم نہیں تھا۔ میں نے معلومات حاصل کیں ۔
عنتر کا پورا نام عنتر بن شداد العسبی تھا۔ عربی زبان میں قبل از اسلام کے چند مشہور ترین اور معتبر ترین شعراء میں اس کا شمار کیا جا تا ہے ۔ اس کے اشعار بہت مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔ اس زمانہ کی بہترین شاعری کا ایک انتخاب معلقات کے نام سے معروف ہے ۔ اس انتخاب میں سات فن پارے شامل تھے جس میں کہ ایک عنتر کا تھا۔ ان فن پاروں کا رتبہ یہ تھا کہ ان کو سونے میں لکھ کر خانہ کعبہ کی دیواروں کی زینت بنایا گیا تھا۔
عنتر کا باپ شداد انسی نجد کا ایک طاقتور رئیس تھا، جو کہ فن سپہ گری میں ماہر تھا اور ہر طرف اس کا دبدبہ تھا۔ عنتر کی ماں ایک حبشی شہزادی تھی جو کہ مال غنیمت کے طور پر شداد کی ملکیت میں آئی تھی ۔ عنتر حالانکہ جوان ہو کر ایک نہایت طاقتور جنگجو ثابت ہوا تھا اور اس کے فن سپہ گری اورعسکری ذہانت کی دھاک دُور دُور تک تھی ۔ شداد نے بھی اس کو اپنا بیٹا تسلیم نہیں کیا تھا۔ چونکہ اپنی ماں کی طرح عنتر کی رنگت سیاہ تھی ۔ اس کی حیثیت ایک غلام سے زیادہ کچھ نہیں تھی ۔ اس بے دلی کی حالت میں وہ اپنا زیادہ تر وقت الصمان کے صحرا میں گزارتا تھا اور اشعار لکھتا تھا۔ عنتر کی رومانی شاعری اس کی محبوبہ عبلہ کے نام ہے ۔ عبلہ جوکہ اس کی رشتہ دار بھی تھی ، القصیم میں رہتی تھی ۔ یہ علاقہ الریاض سے تقریبا پانچ سو کلومیٹرز کی دُوری پر واقع ہے اور نہایت زرخیز ہے ۔ سبز لہلہاتے کھیت اور کثرت سے لگے ہوئے کھجور کے درخت القصیم کو اپنی ایک انفرادیت بخشتے ہیں ۔ کیونکہ عنتر کی حیثیت ایک غلام کی تھی ۔ وہ سال میں دو ایک مرتبہ القصیم جاتا۔ عبلہ کی ایک جھلک دیکھتا اور الصمان واپس لوٹ آتا۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں تھی ۔ جس کی وجہ سے وہ بہت دل بر داشتہ اور ناراض رہتا تھا۔ لوگ مشورہ کرنے اس کے پاس جاتے تو وہیں خیمہ میں اس سے ملتے ۔ الصمان کی فضاؤں میں عنتر کو بہت سکون ملتا تھا۔ وہ صحرا سے باتیں کرتا، ریت سے کھیلتا، ہواؤں کے ذریعہ عبلہ کو پیغامات بھجواتا ۔ ریت پر صبح کی شبنم کی وجہ سے کھلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے پھولوں کے تختوں سے پیار کرتا اور پھر دھوپ کے نکلتے ہی ان کے مرجانے کا نوحہ کرتا ۔ الصمان کی فضاؤں میں اور اس کی تنہائی میں کچھ ایسا جادو تھا کہ عنتر کی شاعری لازوال ہوگئی ۔ اس کے اشعار میں کچھ ایسا اثر تھا کہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے اور وہ آج تک زندہ جاوید ہیں ۔
اسی زمانہ میں قوم العسی پر دشمن کا شدید حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے جنگجو شکست کھا گئے ۔ شداد العسی بھاگتا ہوا صحرا میں عنتر کے پاس آیا اور اس سے التجا کی کہ اپنی قوم کو بچا لے ۔ عنتر نے اسے کہا کہ میں تو ایک غلام ہوں جس کا کام ہے بکریاں چرانا۔ تم ما لک ہو، تمہارا کام ہے قوم کو بچانا۔ شداد نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر آج وہ اپنی قوم کی آبرو بچا لے تو وہ اس کو اپنا بیٹا مان لے گا ۔ عنتر نے اس کی بات رکھتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کیا اور ان کو پسپا کر دیا۔ اس کے
بعد شداد نے اسے اپنا بیٹا تسلیم کر لیا اور عنتر کو نجد میں ایک معتبر مقام ملا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک میں بلادعنتر میں رہا۔ اشعار کا ایک سیلاب تھا جو کہ امڈتا رہا اور میں لکھتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری شاعری میں استعمال کیے گئے استعاروں پر صحرا الصمان کا گہرا اثر ہے ۔