Kanch Ke Guldan

Vases of Glass Author: Khalid Rauf Qureshi

A manuscript consisting of various genres Urdu poetry comprising of Ghazals and numerous types of modern and conservative Nazams.

$24.95

Share This

Description

‘Kaanch Ke Guldan’ is a collection of Urdu poetry, comprising of several types of modern and conservative Nazam and Ghazal.
First published in 2006, this book consists of eighty-five poems spread over 215 pages.
The dominant themes of these poems are romance and socio-economic issues, that face the present-day society. They introduce the reader to a taste of the Pakistani-Indian society and immigrant issues in the North American culture and will be your guide when you embark upon an exciting journey of love, longing, hope, despair, and repentance.
The foreword is written by renowned Urdu scholars and world-famous poets; Khatir Ghaznavi and Nasir Ali Syed.

3 reviews for Kanch Ke Guldan

  1. Ikram Barelvi – Mississauga, Canada

    خالد رؤف کا پہلا شعری مجموعہ میری نظر سے نیہں گزرا- ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ” کانچ کے گلدان” پوری توجہ اور بڑے انہماک سے پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان کی غزلوں اور اور منظومات میں حدیثِ دل و دلبراں اور حکایتِ غمِ دوراں کو گرمیِ نشاطِ تصور اور درد و سوزِ آرزو مندی کے ساتھ موضوع سخن بنایا گیا ہے- علاوہ ازیں، ان کے ہاں یادوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ وہ ان کی شاعری میں جزبہ کو طرح طرح سے جگاتی اور رنگ بھرتی یہں- حیرت کن بات یہ ہے اردو اگرچہ خالد رؤف کی مادری زبان نیہں مگر ان کی شاعری میں زبان کی صحت اور روزمرہ کے محاورے کو برتنے کی صلاحیت اور سلیقہ کسی طور اہلِ زبان سے کم تر نیہں- اگر خالد رؤف نے اپنی شاعری کا سفر اسی وضع و احتیاط کے ساتھ جاری رکھا تو وہ مستقبل میں احمد فراز اور محسن احسان کی سی شہرت اور مقبولیت حاسل کرسکتے ہیں۔

  2. Professor Khatir Ghaznavi

    شاعری ایک جذبہ ہے- جذبہ بڑی وسیع چیز ہے- اس کے کئی پہلو ہیں مثبت بھی اور منفی بھی- ہر جذبے کی ایک حد ہے- جہاں محبت ہے وہاں نفرت ہے- غصہ رواداری، عشق، بے قراری، قرار، احسان مندی، خلوص، دوستی، دشمنی غرض کس کس جذبے کا تذکرہ کیا جائے- شاعر اپنی شاعری میں ان ہی جذبوں کا اظہار کرتے ہیں- جذبہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے ودیعت کیا ہے- البتہ شاعر کو جذبے کا احساس شدید ہوتا ہے- اس کے باوجود شاعری میں ماحول کا اثر دخل ہے- شاعر اپنے ماحول میں جوانوں کے جذبات کے نئے نئے رنگ بناتا ہے- لعکن حعرت اس بات کی ہے کہ وطن سے دور رہ کر اپنی زبان سے کٹ کر بعض شعرا جن کے اندر جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے وہ شعر کو اپنائے رکھتے ہیں اس وقت ہزاروں لوگ ہیں جو وطن سے دور غیر ماحولی فضا میں سانس لعتے ہیں لیکن ان کی زبان ان کے ذہن کا ساتھ دیتی ہے اور قلم اس کی ترجمانی قتطاس پر کرتا رہتا ہے- یورپ، انگلستان، امارات، سعودی عرب، جاپان، چین، روس، امریکہ میں شاعروں کی کھیپ موفود ہے اور وہ اپنی اپنی زبانوں کی آبیاری میں مصروف ہیں- اردو، پشتو، ہندی، فارسی اور دوسرے زبانوں کی شاعری پنپ رہے ہے-
    کینیڈا ایک دوردراز سرزمین ہے لیکن یہاں اردو مختلف شہروں میں پنپ رہی ہے- ٹورنٹو، مونٹریال اور کالگری میں بہت سے اچھا لکھنے والے موجود ہیں- اشفاق حسین نے وہاں شاعری کے علاوہ فیض پر بیش بہا کتاب لکھی ہیں- اردو رسالے شائع ہوئے-
    اچانک پچھلے دنوں مجھے ایک کتاب موصول ہوئی “اک آرزو کا پھول” یہ کتاب خالد رؤف کی شاعری کا مجموعہ ہے-

    خالد رؤف صاحب کی پہلی کتاب “اک آرزو کا پھول” کی پشاور میں خوب پذیرائی ہوئی اور اس کا سہرا پشاور کی شاعرہ بشریٰ فرخ کے سر جاتا ہے- انہاں نے بھرپور محفلیں سجائیں اور احمد فراز اور محسن احسان اور سجاد بابر جیسے شعراء شریک ہوئے- اب خالد رؤف کی دوسری کتاب کانچ کے گلدان سامنے آئی ہے یہ تو اچھا ہوا کہ خالد نے “کانچ کے گلدان” کتاب کا نام رکھا ہے- گلدان ای سے زیادہ ہیں ایک گلدان جو سرورق پر نظر آتا ہے لیکن دوسرے گلدان نظر نہیں آرہے ہیں-

    خالد رؤف میں جذبہ اور شاعری بدرجہ اتم موجود ہے ان کو اتنا مشورہ دے سکتا ہوں کی ٹورنٹو میں اساتذہ شعراء سے ضرور رابطہ قائم رکھیں-

    ہیان میں ان کا ایک شعر پیش کرونں گا-

    زندگی (شاعری) کا نصاب کعسا ہے
    اس کی کوئی کتاب ملتی ہے؟

  3. Muhamad Iqbal Hussain Siddiqui

    حامد قریشی صاحب نے مجھے کانچ کے گلدان بھجوائی۔ کتاب اتنی خوبصورت چھپی ہے کہ میں کتاب دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ خالد رؤف کی شاعری کا مجموعہ ہے، خالد رؤف صاحب خود انجنیئر ہیں اور شمالی امریکہ وغیرہ میں کام کرتے ہیں کینیڈا، امریکہ وغیرہ میں اعلیٰ مناسب پر فائز افراد ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں ان کو Workoholic
    یعنی شراب نوشی کی لت کی طرح کام کرنے کی لت ہوتی ہے۔ عزیز رشتہ دار، بیوی بچے سب بھول جاتے ہیں۔ خالد رؤف کی یہ بڑی ہمت و جراَت ہے کہ وہ ایسے ماحول میں بھی شاعری کرتے رہے۔ خالد رؤف کی شاعری میں روانی ہے۔ اشعار زبان پر نیہں اٹکتے۔ دریا کی سی روانی ہے۔

    اب کہاں پھول کہاں رنگ وفاداری کے
    داغ فرقت کے مجھے دے گئے کب کے موسم
    ہم نبھاتے رہے الفت میں وفا کی رسمیں
    وقت کرتا رہا دنیا سے شکایت کیا کیا

    خالد رؤف شائستہ وضع دار عاشق ہیں۔ علامہ ٰقبال پہلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جبکہ رؤف خالد بھی اپنی نطروں کی وجہ سے پریشان ہیں۔

    ذکروصال عشق میں کرنا حرام ہے
    شوق نظر نے کر دیا بے آبرو مجھے

    یہی شاعر کی نظروں کی معصومیت ہے جو ایک طوائف کو فرشتہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ نظم فرشتہ میں شاعر کی ملاقات ایک حور سے ہوتی ہے۔ جس کا چہرہ چاند، ریشم جیسے نرم ہاتھ ہونٹوں پہ بھولپن جادو جیسی آواز ہوتی ہے ۔

    اس نے شرما کے مسکرا کے کہا
    میرا گھر تھوڑے فاصلے پر ہے
    تم میرے ساتھ کیوں نہیں چلتے
    رات میرے پاس ہی رہ جانا
    صبح کا ناشتہ یہیں پر کرنا

    پھر حور بتاتی ہے کہ میری اجرت ہے پانچ سو ڈالر۔ پاکیستان کے لحاظ سے تیس ہزار روپے بہت زیادہ ہے۔ شاعر کی یہ معصومانہ نظر جلد ہی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ محبت مٹتی جا رہی ہے۔

    کچھ ذکر محبت کا کرو بزم میں یارو
    پھر آج اسے کوئی عقیدت سے پکارے

    بھوک مٹاتے ہوئے ہر ٹکڑے اور پیاس بجھاتے ہوئے ہر قطرے کا شکر گزار شاعر بھی تھوڑا بہت فرقتِ غم محسوس کرتا ہے۔

    آکے بیٹھا ہے دل کی مند پر
    درد الفت کا جانشیں جسے

    اب میں آزاد ہوں
    مسرور ہوں
    آوارہ ہوں

    حقیقت میں ایسا نیہں ہے۔ خالد رؤف اپنے وطن پاکستان میں ذہنی طور پر ہر وقت موجقد رہتے ہیں۔ زیادہ تر شاعری کانچ کے گلدان میں ٹورنٹو کینیڈا وغیرہ میں کی گئی ہے۔ مگر شاعری میں پاکستان ہے جھلکتا ہے۔ کینیڈا وغیرہ نظر نیہں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دیارِ غیر کے حسینانِ چمن شاعر کو پسند نیہں آتے۔

    دن بھٹکتے ہیں تری سوچ کے گلزاروں میں
    تیری زلفوں میں گرفتار ہیں شب کے موسم

    انسانی بنیادی طور پر نا شکرا ہے اپنے خالق کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے- گلے شکوے کرتا ہے- خالد رؤف شکر گزار بندے ہیں-

    شکریہ آگ کا اس خاک کا اس پانی کا
    شکریہ موت کے لمحات کی آسانی کا

    شاعر موت کا بھی شکر گزار ہے اگر آسانی سے آجائے-

    ایک سفیک لڑکی کی بہت اچھی تصویر کھینچی ہے-
    ریشمی بال کھلتے ہوئے کندن کندن
    شوخ آنکھیں ذرا حیران بھی نیلی نیلی
    پیراہن ڈھانپ رہا ہے اچھے تن کو
    کبھی سیماب کناروں سے جھلک جاتا ہے

    اردو شاعری میں ٹورنٹو کی ایک صبح جیسے مناظر بہت کم ملتے ہیں-

    نرم چادر سی بچھی جاتی ہے تا حد نظر
    شہر کا شہر ہے
    ٹھٹھرا ہوا
    سہما سہما

    ماند کرنیں ابھی پھیلی ہیں گزر گاہوں پر
    چاند کی شکل میں سورج ہے صبح کا ابھرا
    سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت بھی ہمارا سورج چاند نیہں بنتا

    شاعر شکر گزار بہت کم ہوتے ہیں- ہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہیں- خالد رؤف شکر گزار شاعر ہیں-

    شکریہ حسن کا احساس کا نادانی کا
    شکریہ عقل کا عظمت کا پشیمانی کا

    حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے- اللٰہ سے یے سوال نیہں کیا جاسکتا کہ مجھے کیوں پیدا کیا ہے؟ وہ اس لئے کوئی ذی روح مرنا نیہں چاہتا- شاید انتہائی بدقسمت لوگ خودکشی کرتے ہیں- ورنہ ایک لاکھ سال کی زندگی کے بعد موت یہ احساس دلاتی ہے کہ ابھی تو زندگی کا پورا لطف نیہں اٹھا سکتے- کاش زندگی کئی لاکھ سال اور لمبی ہو جائے اور موت نہ آئے- غم اور درد پریشانی مصیبت کے گزرنے کے بعد حقیقی خوشی محسوس ہوتی ہے، خالد رؤف نے اس کی خوبصورت ترجمانی کی ہے-

    شکریہ درد کے دورے کا جو ٹل جاتا ہے
    شکریہ غم کے تسلسل کا جو ڈھل جاتا ہے

Add a review

Your email address will not be published. Required fields are marked *