سہہ ماہی زاویہ کا احمد فراز نمبر اس مرتبہ ہاتھ میں ایا تو ایک خوشی، احساس کے ساتھ ساتھ بہت ساری یادیں تازہ کر گیا۔ اور ڈھیر سارا ورد ہماری بھول میں ڈال گیا، اس میں شامل تمام مضامین، نظمیں، غزلیں، یاداشتیں تمام ہی لکھنے والوں نے اپنے دلوں کی اتنی گہرائی سے لکھی ہیں اور اتنے خلوص سے پیش کی ہیں کہ آنکھیں بھر آئیں اور دل رو دیا۔ فراز کی اپنی تحریر کا عکس دیکھ کر اور ان کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ہمارے سامنے بیٹھے اپنے اشعار سنا رہے ہوں۔ فراز کے ساتھ گذاری ہوئی طالب علمی کے زمانے کی بے شمار شامیں، پشاور صدر کے سلور سٹار اور گارڈین کیفے میں روزانہ کی مجلسیں اور پھر اسلامیہ کالج، ایڈورڈز کالج اور پشاور یونیورسٹی کے مشاعروں میں ان کی شمولیت پر ان سے ان کے اشعار بار بار سننا اور ان پر ہمارا سردھننا تمام ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے آگیا۔ بالخصوص فراز کے ساتھ اپنے آخری وہ یادگار ملاقات یاد آئی جو پشاور میں ہمارے عزیز بزرگ دوست یوسف رجاء چشتی مرحوم کی رہائش گاہ پر ایک اجتماع میں ہوئی۔ یہ مئی 2006ء کی بات ہے۔ ان دنوں یوسف رجاء کی طبیعت اچانک خراب ہونے کی وجہ سے وہ ہماری محفلوں میں شامل ہونے سے محروم و قاصر تھے اور بہت دل برداشتہ تھے۔ ان کی بیٹی شمامہ نے اپنے والد کی دلجوئی کی خاطر یہ محفل گھر پر ہی منعقد کی تھی۔ اس میں پشاور کے تمام شعراء خواتین و حضرات اور دیگر ادبی شخصیات مدعو تھیں۔ احمد فراز اسلام آباد سے خصوصاً تشریف لائے تھے اور میں اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے کے لئے حسبِ معمول کینیڈا سے پشاور آیا ہوا تھا۔ شام سات بجے کے قریب تمام مہمان یکے بعد دیگری پہچنا شروع ہوگئے۔ بشریٰ فرخ اور میں کچھ پہلے ہی آگئے تھے تا کہ شمامہ کا انتطامات میں ہاتھ بٹا سکیں، رجاء چشتی بہت خوش تھے اور بڑے دنوں کے بعد حشاش بشاش نظر آرہے تھے ۔ جلد ہی خاطر غزنوی، محسن احسان، احمد فراز، ناصر علی سید، بشریٰ فرخ، سجاد بابر، نذیر تبسم، اکمل نعیم، حسام حر، ماجد سرحدی اور یونس صابر وغیرہ تشریف لے آئے۔ پہلے چائے کا دور چلا۔ وسیع لان پر کرسیاں ایک دائرے کی صورت میں بچھائی گئی تھیں۔ گرمیوں کی خوشگوار شام تھی۔ دوستوں کی محفل تھی اور بڑی رونق تھی۔ احمد فراز جلد ہی آگئے تھی اور سب سے گھل مل کر باتیں کر رہے تھے۔ ان کو ہمیشہ سے پشاور آنا اور وہاں کی محفلوں میں شامل ہونا برا مرغوب رہا تھا۔ اکثر اپنا ذاتی ہوائی ٹکٹ خرید کر یا موٹر کار سے سفر کرکے اسلام آباد سے پشاور آتے اور اپنے خرچے پر یا اپنے عزیزوں کے پاس وہاں ٹھہرتے۔ اس محفل سے کچھ ایک سال قبل میرے پہلے شعری مجموعے، "اک آرزو کا پھول" کی افتتاہی تقریب کا احتمام جب بشریٰ فرخ نے کیا اور احمد فراز کو مدعو کیا تو حالانکہ وہ اس رہز جاپان سے لاٹے تھے اور بہت تھکے ہوئے تھے اور مصروف بھی وہ پشاور آئے اور ہمارے محفل کی صدارت کی۔ انہوں نے کوئی بھی معاوضہ یا خرچہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس شام میرے ساتھ شیراز ہوٹل میں ڈنر کیا۔ نہایت ہی سادہ کھانا کھایا اور بڑی اپنائیت سے بات چیت کرتے رہے۔ ان کے علاوہ ہمارے ساتھ خاطر غزنوی، محسن احسان، بشریٰ فرخ اور ناصر علی سید بھی موجود تھے۔ خوب گپ شپ رہی۔ خاطر غزنوی، محسن احسان اور احمد فراز چونکہ گہرے دوست تھے ان کی آپس کی نوک جھونک بڑہ دلچسپ تھی۔ خاطر غزنوی کو چونکہ شوگر کی شکایت تھی، انہوں نے پہلے مجھ سے انسولین کا ٹیکہ لگوایا اور پھر خانے کے بعد کلفی ملائی کی فرمائش کی۔ جب ویٹر کلفی کی جگہ آئس کریم لے کر آیا تو فراز نے اس کو بہت ڈانٹا اور خاطر غزنوی کو بھی جھڑکا کہ خوامخواہ حد سے تجاوز کر رہے ہو، مرو گے۔ بڑی دلچسپ محفل تھی جو کہ رات دیر تک جاری رہی۔
یہ تذکرہ درمیاں میں آگیا، یوسف رجاء کے گھر پر محفل کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس دن محفل زوروں پر تھی۔ اتفاق سے میں اپنا ویڈیو کیمرہ ساتھ لے گیا تھا سہ وہ میں نے حاضرین میں سے کسی کے حوالہ کردیا کہ تصویریں لے جا سکیں۔ تمام حاضرین اپنے اپنے اشعار سنا رہے تھے۔ اور داد وصول کر رہے تھے ۔ احمد فراز بھی بڑی خوش دلی سے اور فراغ دلی سے چیدا چیدا اشعار کو سراہتے اور کبھی کبھی کسی شاعر کو انتبائی نظروں سے دیکھ لیتے اگر شعر سقم لئے ہوئے ہوتا۔ اس دوران شام ڈھل گئی اور اندھیرا چھا گیا۔ رات کے کھانے کا اجتماع تھا۔ نو بجے کے قریب کھانا کھایا گیا، اور پھر تمام حاضرین واپس اپنی نشستوں پر آکر بیٹھ گئے۔ اور شعر و سخن کا سلسلہ ایک بار پھر جاری ہوگیا۔ یوسف رجاء چشتی نے اپنی زندگی کی آخری غزل پڑھ کر سنائی جو انہوں نے اس دن صبح ہی لکھی تھی۔ ان کے شعروں میں بڑی گہرائی تھی جو فارسی اور اردو زبانوں میں ان کی مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت تھے۔ ہمارے اکثر نامور شعراء نے ان سے کسی نے کسی مقام پر صلاح یا اصلاح لی ہے۔
آخر میں احمد فراز نے اپنا کلام سنانا تھا۔ انہوں نے اپنی ڈائری نکال کر ابھی کھولی ہی تھی کہ اچانک بجلی فیل ہوگئی۔ چونکہ پاکستان میں ایسا ہونا کوئی حیرت کی بات نیہں تھی احمد فراز نے چونکے بغیر کہا، لو بھئی آگئے اپنی اوقات پر۔ جلدی سے کوئی چراغ روشن کرو، ایک ایمرجنسی لائٹ کا انتظام کیا گیا۔ میں چونکہ فراز، خاطر غزنوی اور محسن احسان کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اس لئے میں نے ایمرجنسی لائٹ سنبھال لی اور فراز کی نشست کے پیچھے کھڑا ہوکر ان کو روشنی دکھانے لگا۔ اس لائٹ کی روشنی میں انہوں نے بے شمار نئی پرانی نظمیں اور غزلیں ہمیں پڑھ کر سنائیں۔ آپ تصور نیہں کرسکتے کہ کھلے آسمان کے تلے، ستاروں کی چھاؤں میں اور رات کی نیم تاریکی میں فراز کے اشعار ان کی اپنی آواز میں سننے کا جو لطف ہے وہ کسی عبادت یا شراب میں نہیں۔ وہ مزے لے لے کر اپنے شعر سناتے رہے اور ہم سب لطف اٹھاتے رہے۔ عجیب جادوئی ماحول تھا۔ ایک نشہ تھا کہ سر چڑھ کر بول رہا تھا اس دن جب رات گئے ہم سب نے ایک دوسرے کو الوداع کہا تو کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ شاید کچھ دوستوں سے ہماری پھر ملاقات کبھی بھی نہ ہوسکے۔
حقیقتاً وہ رات بڑی یادگار ثابت ہوئی ۔ ہمارے اردو ادب کے بڑے بڑے نام ایک جگہ ہی کھلے آسمان کے نیچے یکجا تھے۔ کیا پتہ تھا کہ بہت جلد ہی ان مین سے کتنے درخشاں ستارے بجھ جائیں گے۔ کچھ ہی عرصہ میں پہلے یوسف رجاء چشتی کا انتقال ہوا۔ پھر خطر غزنوی چل بسے۔ اس کے بعد ماجد سرحدی اور آخر میں احمد فراز ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔
2008ء اور 2009ء کے سال اردو ادب پر بہت بھاری گزری۔ خاص کر پشاور کے ادبی حلقوں پر ان کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ یہ تمام لوگ تو چلے گئے لیکن ہماری آنکھوں میں بہت سارے آنسو اور دلوں کو بہت ساری یادیں دے گئے۔
جب ارشاد صدیقی صاحب نے فراز نمبر کے لئے مجھے کچھ لکھنے کو کہا تو میں تمام تر کوشش کے باوجود ایک لفظ بھی نہ لکھ سکا کہ دل بہت بھاری تھا اور قلم ساتھ دینے سے انکار کر رہا تھا۔ اب کہ طوفان کچھ تھم گیا ہے اور سیلاب تھوڑآ اتر چکا ہے اور خشکی ذرا ذرا نظر آرہی ہے تو یہ چند یاداشتیں پیشِ خدمت کر رہا ہوں۔
ارشاد صاحب، آپ اور آپ کے رفقاء زاویہ کے ذریعہ ادب کے اس علم کو اٹھائے رکھئے کہ اب جبکہ معتبر ادبے ہستیاں دنیا سے اٹھتی چلی جا رہی ہیں۔ ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جو ہم سب کو اور ادب کی جدید کاوشوں کو یکجا اور منظم رکھ سکے۔
زاویہ کہ احمد فراز نمبر کی اشاعت پر تمام ٹیم کو میری طرف سے دلی مبارکباد۔
خالد رؤف صدیقی
Toronto, Canada.