شہرِ گل کا محسن

دسمبر کا مہینہ تھا اور میں حسبِ معمول اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے کینیڈا سے پشاور آیا ہوا تھا۔ اس دن سہر ہر کا وقت تھا۔ تقریباً ساڑھے چار بجے میں نے یونیورسٹی ٹاؤن میں اپنے گیراج سے گاڑی نکالی اور بشریٰ فرخ کے گھر روانہ ہوگیا۔ آج ماجد سرحدی مرحوم کے رفقاء کے زیرِ احتمام تخلیق انٹرنیشنل کا ماہانہ اجلاس تھا۔ ماجد سرحدی کے انتقال کے بعد اس مجلس میں شامل ہونے کا چونکہ میرا پہلا موقع تھا اس لئے میں کافی پر اشتیاق تھا۔ جلد ہی میں بشریٰ فرخ کے گھر پہنچ گیا۔ گھنٹی بجانے پر جب وہ باہر آئیں تو کہنے لگیں "ارے خالد بھائی، آپ تو بہت جلد آگئے۔ ابھی تو میں تیار بھی نیہں ہوئی۔ چلئے اچھا ہے، راستے میں محسن احسان اور ان کی بیگم ثروت کو بھی ساتھ لیتے چلیں گے۔" جس دوران بشریٰ تیار ہوئیں میں ان کے پیش کردہ چائے اور اس کے ساتھ گرم گرم سموسوں سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم دونوں محسن احسان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ سفر کے دوران بشریٰ محفل میں مدعو مختلف شاعر خواتین و حضرات سے میرا غائبانہ تعارف کروا رہی تھیں ۔ لیکن میرے خیالات میں محسن احسان کا شفیق چہرہ تھا جن کو میں کافی عرصے کے بعد ملنے والا تھا۔ کچھ ہی دیر میں محسن احسان کی بہن کی رہائش گاہ کے سامنے میں نے گاڑی روکی اور گیٹ کے پاس لگی ہوئی گھنٹی بجائی۔ پہلے ان کی بیگم باہر نکلیں اور پھر محسن ۔ ان کو دیکھ کر دل کو ایک دھچکا سا لگا کہ وہ کافی کمزور لگ رہے تھے اور اپنی شریکِ حیات کا سہارا لے کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان کا ہمیشی بشاش رہنے والا چہرا کچھ کملایا ہوا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ بیمار تھے لیکن بہت کو دیکھئے کہ تمام ادبی محفلوں میں پوری گرم جوشی سے شرک کر رہے تھے۔ میں نے ان کو سہارا دے کر گاڑی تک پہنچایا اور اگلی نشست کا دروازہ کھول کر ان کو احتیاط سے اندر بٹھایا کہ جیسے کوئی کسی بڑی سی نایاب مگر نازک چیز کا خیال رکھتا ہے۔ بشریٰ اور ثروت محسن پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ ہم سب تقریباً ساڑھے پانچ بجے اپنے منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ منتظمین نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور مہمانوں کو اپنے کشادہ اور روشن تہہ خانہ کا راستہ دکھایا جہاں پر محفل کا احتمام کیا گیا تھا۔  میں محسن صاحب کے ساتھ ساتھ چلتا رہا جب تک کہ وہ سیڑھیاں اتر کر اپنی نشست تک پہنچ گئے۔ یوں میں باقی مہمانوں کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ تہ خانہ میں چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ نرم گدے رکھے گئے تھے جن پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں اور گاؤ تکئے لگے ہوئے تھے۔ مہمان شعرا رفتہ رفتہ آنے لگے اور دیکھتے ہے دیکھتے تمام نشستیں بھر گئیں ۔ پروفیسر محسن احسان کے علاوہ وہاں پروفیسر طہٰ خان۔ اسلام آباد سے آئی ہوئی نرجس زیدی اور پشاور کے قرب و جوار سے آئے ہوئے چیدہ چیدہ شعراء موجود تھے۔ 

خاطر غزنوی موجود نیہں تھے کہ ان کی تبیعت ان دنوں ناساز رہتی تھی اور باوجود کوشش کے شامل نہ ہوسکے تھے۔ ناصر علی سید بھی چند مصروفیات کی بنا پر نیہں آئے تھے۔ افتتاحی تقاریر کے بعد شعرا نے اپنا پانا کلام سنانا شروع کیا تو محفل جیسے رنگ پر آگئی۔ اور ایک سماع کا ماحول بندھ گیا۔ 

محسن احسان جلسہ کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے ابتداء ہی میں میرا تعارف کینیڈا سے آئے ہوئے مہمان شاعر کے طور پر کروایا اور مجھے اپنے ساتھ خصوصی نشست پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ نہایت شفقت سے میرا حال پوچھا اور میری ادبی کاوشوں کو سراہا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ان کی شخصیت میں خلوص اور شفقت کی ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ ایک پرکشش شخصیت کی مالک ہیں اور اپنی بات کو خوش دلی اور وقار سے پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ 

اس دن کی وہ محفل بڑی یادگار ثابت ہوئی اور رات گئے تک جمی رہی۔ محسن احسان نے صدرِ مشاعرہ ہونے کی حیثیت سے سب سے آخر میں اپنا پر اثر کلام سنایا۔ میزبانوں نے رات کے کھانے کا پر تکلف انتظآم کر رکھا تھا جو حاضرین نے نہایت شوق سے تناول کیا۔ جب سب لوگ واپس اپنی نشستوں پر آگئے تو محسن احسان نے سب کو ایک دئرے کی صورت اپنے گرد اکٹھا کرلیا اور کافی دیر تک ماجد سرحدی کو یاد کرکے ان کے بارے میں اور تخلیق انٹرنیشنل کے اجراء کے بارے میں باتیعں کرتے رہے۔ ان باتوں میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا۔ "ماجد سرحدی بہت ہی چاق و چوبند رہتے تھے۔ محفلیں منعقد کرنے کا انیہں جیسے چسکا لگا ہوا تھا۔ حیات آباد منتقل ہوکر آگئے تو ایک دن میرے پاس آئے۔ کہ حیات آباد میں ادبی فضا نیہں ہے تو کوئی نام رکھ کر ایک انجمن بناتے ہیں۔ اور محفلوں کا آغاز کرتے ہیں۔ میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے۔ پشاور شہر میں خاطر غزنوی نے شنڈیکیٹ آف رائٹرز بنائی ہوئی تھی اور اس کی ہر مہینے کہ پہلے جمعہ کو نشست ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چلو ہم ہر ماہ کا آخری جمعہ رکھ لیتے ہیں۔ ماجد نے کہا کہ کوئی نام تجویز کریں۔ ہم دونوں مختلف نام سوچتے رہے۔ پھر تخلیق کے نام سے سوچا کہ یہ انجمن بنا لیتے ہیں۔ تخلیق کی حد تک تو میں ساتھ تھا۔ پھر تخلیق انٹرنیشنل جب اس کا نام رکھا گیا تو وہ ماجد صاحب کی اپنی سوچ اور فکت تھی۔ اور اسے انٹرنیشنل سطح پرلے جانے کے لئے وہ کوشش کرتے رہے۔ پھر میں باہر چلا گیا۔ گزشتہ برس میں واپس لوٹا۔ انیہں پتا چلا تو ٹیلیفون کیا کہ آپ نے آنا ہے۔ تو میں حاضر ہوا۔ خدا مغفرت کرے۔ یہی لیٹے ہوئے تھے۔ اور کچھ تکلیف میں تھے۔ کہنے لگی کہ تکلیف سے معذرت چاہتا ہوں اٹھ نیہں سکتا۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نیہں آپ آرام کریں، اس دوران باتیں ہوتی رہیں۔ ماجد صاحب میں کمال یہ تھا کہ وہ بہت اخلاص کے ساتھ۔ بہت محبت کے ساتھ ادب کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ احباب کا حلقہ اکٹھا ہوتا رہے اور کسی نہ کسی صورت ادب کی محفلیں منعقد ہوتی رہیں۔ تاکہ ہماری نئی نسل اس کا استفادہ کرسکے ۔ اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ محبت، نیک نیتی اور احترام ان کے دل میں ہر شخص کے لئے موجود تھا۔ نہایت ہی پرخلوص تھے۔ "

آخر میں محسن احسان نے ماجد سرحدی کے حق میں دعائے مغفرت کی جس پہ بعد میں یہ محفل برخواست ہوگئی۔ اگر ان کے مندرجہ بالا الفاظ پر غور کیا جائے تو خود محسن احسان کی پرخلوص اور محبت کرنے والی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ان کے دل میں دوسروں کے لئے عزت و احترام نظر آتا ہے۔ پروفیسر محسن احسان کی شخصیت اور ان کے ادبی قد کے بارے میں لکھنا تو جیسے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ انکے زندگی کے شب و روز پر یہاں مختصراً "بات" ضرور کی جاسکتی ہے۔ محسن احسان 17 اکتوبر 1932ء کو بمقام پشاعر میں پیدا ہوئے۔ انیہں نے اپنی ابتدائی تعلیم پشاعر کے سناتن دھرم ہائی سکول سے مکمل کی۔ ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیوٹ طور پر دئے اور کامیابی حاصل کی۔ پشاور یونیورسٹی سے انگریزی زبان میں ماسٹرز کی ڈگری کی جس کے بعد اسلامیہ کالج پشاور کے ساتھ انگریزی کے لکچرار کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہیں پر پہلے Associate Professor اور بعد ازاں ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ کے طور پر 40 سال تک کام کیا اور وہیں سے رٹائر ہوئے۔ 

اردو زبان طالبِ علمی کے زمانے سے ہی ان کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ لیکن باقائدہ طور پر اردو نظم اور نثر لکھنا انہوں نے لگ بھگ 1947ء میں شروع کیا۔ ملک کے سیاسی حالات میں تبدیلیاں ان دنوں کے نوجوانوں کی سوچ کو متاثر کر رہی تھیں اور ان کو اپنے ماحول میں رونما ہونے والے واقعات پر گہرائی سے سوچنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ محسن احسان بھی دوسرے نوجوانوں سے کچھ مختلف نیہں تھے۔ اپنے مشاہدات اور محسوسات کو کاغذ پر اتارنے کے لئے اپنوں نے شاعری کا سہارا لیا۔ لکھنہ کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے تک پہنچانے کے لئے اردو زبان کا انتخاب کرنا ان کا ایک منطقی مگر شاید غیر ارادی فیصلہ تھا۔ 

جوں جوں وہ لکھتے گئے قلم میں مقصدیت اور جوش شامل ہوتا گیا۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کی ہلکی سی آمیزش نے ان کے اشعار کو نہ صرف دل کش بنادیا بلکہ ادبی حلقوں میں بہت زیادہ مقبول بھی۔ محسن احسان کے کلام کے متعدد مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ اور تمام ہی بہت مقبول ہوئے ہیں۔ ان کے ہر کتاب کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے نام ہیں۔ 'ناتمام' 'ناگزیر' 'ناشنیدہ' 'نارسیدہ' اور مٹی کے مہکار (اس کتاب کو بھی 1997ء میں سیرت ایوارڈ دیا گیا۔

 زمانے پر درِ رشد و ہدایت کھولنے والے۔

 ادھر بھی اک نظر غارِ حرا سے بولنے والے۔ 

 ان کا نعتیہ کلام کا مجموعہ 'اجمل و اکمل' خصوص توجہ کا حامل ہے۔ بچوں کے لئے لکھی ہوئی نظموں کی کتاب 'پھول پھول چہرے' ہمدرد فاؤنڈیشن کے حکیم سعید نے پہلی مرتبہ شایع کی۔ بچوں کے لئے یہ نظمیں بہت زیادہ پسند کی گئیں اور اس زمانے میں جب کہ بچوں کے لئے اردو لٹریچر لکھنا اور شایع کرنا چند لوگوں اور اداروں تک ہی محدود تھا۔ اس کتاب نے ایک خلا بھرنے کی بھرپور کوشش کی۔ محسن احسان نے بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھیں ہیں۔ 1965ء کی پاکستان ہندوستان جنگ کے دوران محسن نے اس دور کے حالات سے متاثر ہو کر ایک منظوم ڈرامہ لکھا جو کہ اباسین آرٹس کونسل کے زیرِ احتمام سٹیج پر پیش کیا گیا اور دیکھنے والوں کی داد اور تحسین کا حقدار بنا۔ 

خوشحال خان خٹک کی رباعیات کا پشتو زبان سے اردو میں ترجمہ کرنا ایک بہت دشوار کام تھا جو انہاں نے نہایت خوش اصلوبی سے انجام دیا۔ اس کتاب کو پشتو اکیڈمی پشاور نے بڑی احتمام سے شایع کیا۔  محسن احسان چونکہ بنیادی طور پر انگریزی کے استاد ہیں انہوں نے چند دوسرے ادیبوں کے ساتھ مل کر ساتویں سے دسویں جماعتوں کے لئے انگریزی ٹیکسٹ کی کتابیں لکھیں اجو کہ نصاب میں شامل کی گئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چند انگریزی ڈراموں کا اردو میں نہایت موثر ترجمہ بھی پیش کیا۔ 

جان ڈرائڈن کا all for love اور بنارڈ کا arms and the man ان میں شامل ہیں۔ 

محسن احسان نے اردو میں شاعری کے علاوہ بے شمار مضامین لکھے ہیں جو کہ پاکستانی، ہندوستانی اور بین القوامی سطح پر مختلف جریدوں میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے ادبی رویو اور تنقیدی مضامین بہت بلند پایہ اور جامد ہیں اور ادبی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کا ایک نیا شعری مجموعہ بہت جلد منطرِ عام پر آنے والا ہے۔ کہ رہے تھے کہ ابھی نام تجویز نیہں کیا۔ 

اپنے وطن سے دوستی اور اس کی مٹی سے والہانہ پیار محسن کے اشعار میں جا بجا جھلکتا ہے۔ اپنے آبائی شہر پشاور کے بارے میں لکھتے ہیں۔ 

گلاب شہر میں احسان مند ہوں تیرا

کہ میری جاں کےقرینے ترے جمال سے ہیں

یہ میری ذات میں قومیں قزح کے جتنے ہیں رنگ

تری ہی مٹی سے ہیں، تیرے خد و خال سے ہیں

یہ بجلیاں جو مری روح میں چمکتی ہیں

ترے جلال ترے حسنِ لازوال سے ہیں

سماعتوں میں ہیں محفوظ جتنی آوازیں 

ضمیرِ خاک سے رفتارِ ماہ وسال سے ہیں

گلاب شہر ترے کوچہ و در و دیوار

قدیم عہد کی تاریخ ان میں بولتی ہے

سفید ریش بزرگوں کی آنکھ کی مستی 

وفورِ کیف کے سربستہ راز کھولتی ہے

اور پھر موجودہ سیاسی اور معاشرتی حالات کا گلہ کرتے ہیں۔ 

گلاب شہر تجھے کھا گئی ہے کس کی نظر 

کہ بام و در ہیں ترے خون میں نہاتے ہوئے

شفق میں ڈوبی ہیں تیری تمام محرابیں

کہ سجدوں میں غازی ہیں خوف کھائے ہوئے

کہاں سے آئے تری بستیوں میں دہشت گرد

یہ کن پہاڑوں سے آئے ہیں بن بلائے ہوئے 

گلاب شہر ترے گل کروں کی خیر بہاں

نہ دھوپ دھوپ رہی اور نا سائے سائے ہوئے۔

پھر یک جگہ لکھتے ہیں۔ 

جو کچھ ہے پسِ پردہ اسرار بچائیں

شیخانِ حرم حرمتِ دستار بچائیں

اے شہر بت خوں تری گلیوں میں بچھا ہے

کس طرح سے تیرے در و دیوار بچائیں

محسن احسان صرف اپنے وطن کے بارے میں فکر مند نیہں، ماحولیات پر بھی ان کی تہری نظر ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ 

جو ہاتھ اٹھتا ہے وہی نیشہ کلف ہے

کس کس سے ہم اس باغ کے اشجار بچائیں

گلزار کے رکھوالوں نے خوشبوئیں چرالیں

باقی جو بچا ہے وہ خس و خار بچائیں

اپنی وطن دوستی کا ثبوت وہ یوں دیت ہیں

چراغ دستِ ہنر آفرمیں پہ رہتے ہیں

ہزار شکر ہم اس سرزمیں پہ رہتے ہیں

تلاشِ رزق میں ہوں لاکھ در بدر لیکن

دل و دماغ ہمارے یہیں پہ رہتے ہیں

مرے چمن کے دلاویز و نشیہں موسم 

کفِ بہار و لبِ نازنیں پہ رہتے ہیں

پاکبانوں کی وطن سے دوری کے درد کو محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

دکھوں کے دشت، غموں کے نگر کو چھوڑ آئے

وہ ہم سفر کہ جنیہں ہم سفر میں چھوڑ آئے 

بہت جمیل سی یادوں کو ساتھ لے آئے 

بہت مغموم سے چہروں کی گھر میں چھوڑ آئے

بہت قرینے سے ہم آگئے کنارے پر

بہت سلیقے سے کشتی بھنور میں چھوڑ آئے

کس احتمام سے اب تک پکارتی ہیں ہمیں

وہ چاہتیں جنہیں دیوار و در میں چھوڑ آئے 

بہت عجیب تھے وہ لوگ جو دمِ رخصت 

کئی کہانیاں اس چشمِ تر میں چھوڑ آئے 

نہ دن ہی پھرتے ہیں محسن نہ شب بولتی ہے

وطن کو کون سے شام و سحر میں چھوڑ آئے

قوم کی موجودہ حالد کو دیکھتے ہوئے گلہ کرتے ہیں

ہوا چلی تو مرا عارضی مکان گیا

تنابیں کھینچ رہا تھا کہ سائبان گیا

زمیں تو پاؤں تلے سے سرک چلی لیکن

مناؤ خیر کہ اب سر سے آسمان گیا

میں جس سے بھیک سویروں کی مانگتا تھا وہ شخص

ردائے ظلمتِ شب میرے سرپہ تان گیا

امامِ وقت نے اپنی قبامیں ڈانت لئے

گلاب جتنے لگا کے وہ باغبان گیا

محسن احسان کی شاعری کی ایک بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول می پیش آنے والے واقعات اور حادثات کے اثرات تو قبول کرتے ہیں لیکن ان سے دل برداشتہ ہو کر حوصلہ نیہں ہارتے۔ اپنے اشعار میں پڑھنے والے کو تمام مشکلات اور تکالیف کا احساس دلانے کے بعد وہ ایک راہ بھی دکھاتے ہیں اور ایک پرامید مستقبل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ غم اور امید کی یہ آمیزش ان کے اشعار کو افسردگی کے باوجود شکست خودگی سے دور رکھتے ہے۔ کہتے ہیں۔ 

ہر موج بلا خیز کو زنجیر کریں ہم

اک خاک کی چٹکی کو بھی اکسیر کریں ہم

اور پھر یہ

مری سماعت و بینائی چھیننے والے 

میں سن بھی سکتا ہوں مجھکو نظر بھی آتا ہے

نیہں چراغ بچھانے کا زعم ہو لیکن

ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

فلک نشیں سہی میرا خدا مگر محسن 

کبھی کبھی وہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے۔

محسن احسان کی شاعری کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے جن میں ہندی، انگریزی، چینی، اور ملیشائی زبانیں شامل ہیں۔ 

انہوں نے اپنی درس و تدریس کی معروف زندگی کے باوجود بہت سارے ملکی اور غیر ملکی اداروں کے ساتھ کام کیا۔ اور انچے مناصب پر فائز رہے۔ 

ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔

ممبر سنڈیکیٹ پشاور یونیورسٹی پشاور

ممبر بورڈ آف گورنرز اقبال اکیڈمی، منسٹری آف ایجوکیشن، اسلام آباد 1973ء تا 1983ء

ممبر بورڈ آف گورنرز اکیڈمی آف لیٹررز، منسٹری آف ایجوکیشن، اسلام آباد 1982ء تا 1986ء

ممبر نیشنل ٹیکسٹ بورڈ رویو کمیٹی، اسلام آباد

ممبر مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی، پاکستان رائٹرز گلڈ

ممبر گورننگ باڈی اقبال اکیڈمی، لاہور، 1999ء

ممبر گورننگ باڈی مقتدرا ۔ اردو لینگویج اتھارٹی ۔ 1996ء

چیئرمین سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور

سنٹر وائس چیئرمین اباسین آرٹس کونسل ۔ پشاور

اس کے علاوہ آپ امریکن لٹریری ترانسلیشن ایسوسیئیشن (ALTA)کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ 

وغیرہ وغیرہ۔

محسن احسان کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں مختلف اعزازات سے گاہے بہ گاہے نوازا جاتا رہا ہے۔ 1974ء میں اور پھر 1981ء میں ان کو اباسین لٹریری ایوارڈز دئے گئے۔ 1981ء میں ہی اکیڈمی آف لیٹررز پاکستان نے ان کو علامہ اقبال پوئٹری ایوارڈ سے نوازا۔ 1988ء میں نئی دہلی ہندوستان میں ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ آف پوئٹری دیا گیا۔ 1989ء میں نقوش ایوارڈ ملا۔ 1994ء میں ایک طرف بزمِ علم و فن اسلام آباد نے ان کو نعمت علی شاہ ایوارڈ کا مستحق قرار دیا تو دوسری طرف ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی نے وسیقۃ اعتراف پیش کیا۔ 

1999ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کو پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ 

محسن احسان کو حکومتِ پاکستان سے ستارہ امتیاز حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ محسن احسان کی ادبی سرگرمیوں میں کثرت سے بین الاقوامی اداروں سے ساتھ مل کر کام کرنا اور مختلف ملکوں میں اپنے پیپرز پیش کرنا شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ہندوستان کے علاوہ ایران، مشرقِ وسطیٰ ، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، ناروے وغیرہ کے متعدد شہروں میں اپنے علم و فضل کی شمع روشن کی اور حاضرین کو متاثر کیا۔ 

پشاور میں دسمبر 2008ء کی اس شام کو جب میں تخلیق انٹرنیشنل کے جلسہ سے باہر آیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا تو گاڑی میں محسن احسان، ثروت احسان اور بشریٰ فرخ میرے ساتھ تھے۔  حیات آبات کی شاہراہ نمبر 1 پر مڑتے ہوئے میں نے سوچا کہ محسن احسان اردو ادب کے حوالے سے نہ صرف ہمارے شہر پشاور بلکہ پاکستان، ہندوستان اور بین الاقوامی سطح پر ایک بہت بڑی شخصیت ہیں۔ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک لمبی عمر عطا فرمائے تا کہ وہ اردو ادب کی یہ بے لوث خدمت اسی شد و مد سے جاری رکھ سکیں اور ہمارا سر فخر سے بلند کرتے رہیں۔ 

آمین۔۔

Share This

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *